Author Topic: تعلیمی بورڈز کے انتظامی کنٹرول پرمحکمہ تعلیم اور گورنر ہاؤس میں کشمکش BISE  (Read 2559 times)

Offline iram

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 3849
  • My Points +16/-3
  • Gender: Female

 
تعلیمی بورڈز کے انتظامی کنٹرول پرمحکمہ تعلیم اور گورنر ہاؤس میں کشمکشBISE   
کراچی(محمد عسکری … اسٹاف رپورٹر) صوبائی محکمہ تعلیم اور گورنر ہاوٴس کے درمیان تعلیمی بورڈز کے انتظامی کنٹرول کے معاملے میں کشمکش شروع ہوگئی ہے صوبائی محکمہ تعلیم نے سندھ کے تعلیمی بورڈز کا کنٹرولر لینے کے لیے اقدامات کرنے شروع کر دئے ہیں اور اس معاملے کو آئندہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں لائے جانے کا امکان ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم نے پیر مظہر الحق نے تعلیمی بورڈز کے حوالے سے باقاعدہ یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ جب باقی صوبوں میں تعلیمی بورڈز محکمہ تعلیم کے پاس ہیں تو سندھ میں ایسا کیوں نہیں اور تعلیمی بورڈز کا کنٹرول سنبھالتے ہی بوررڈ میں تعینات تمام ریٹائرڈ افراد کو فارغ کردیا جائے گا اس صورتحال کے تناظر میں گورنر ہاوس میں ایک اعلی سطح کا اجلاس کیا گیا جس میں طے کیا گیا کہ بورڈز کا انتظامی کنٹرول بدستور گورنر کے پاس رہنے کے لیے بھرپور دفاع کیا جائے گا اس سلسلے میں باقاعدہ ورکنگ پیپر بھی تیار کیاگیا جس کے مطابق سندھ کے 6انٹر اور میٹرک بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنرکے پاس ہے۔ 1962ء میں مغربی پاکستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کا آرڈیننس جاری کیا گیا اور اس کے بعد جتنے بھی آرڈیننس جاری ہوئے ان تمام آرڈیننس میں ابتدائی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر کے پاس تھی تاہم 1988ء میں گورنر سندھ نے اپنے اختیارات صوبائی وزیر تعلیم کو منتقل کر دیئے تاہم بعد ازاں گورنر محمود اے ہارون نے اپنے اختیارات واپس لے لئے۔ ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ امتحانی معاملات کو محکمہ تعلیم سے علیحدہ ہونا چاہئے تاکہ امتحانی نتائج کی شفافیت برقرار رہ سکے۔ بیرون ممالک میں یہ بات طے ہے کہ امتحانی اداروں کو علیحدہ کام کرنا چاہئے اسی لئے کیمبرج سسٹم، جی ای سی سسٹم اور امریکن ایجوکیشن سسٹم علیحدہ اداروں کے تحت کام کرتے ہیں اس کے علاوہ بورڈز پر امتحانی معاملات کے حوالے سے بیرونی دباؤ ہوتا ہے تاہم گورنر کے کنٹرول میں رہنے کے باعث بیرونی سیاسی دباؤ سے بورڈ بچ سکتے ہیں۔ ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ محکمہ تعلیم کے تحت کئی برسوں سے کام کر رہا ہے اور یہ ادارہ وقت پر درسی کتب فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے اور اس حوالے سے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اور محکمہ تعلیم کے حکام کے مابین کتابوں کی تاخیر کی وجوہات مختلف ہیں۔ ورکنگ پیپر میں پنجاب کے سابق چیف منسٹر مسعود نبی نور کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امتحانات کی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے بورڈز کو آزاد اور صاف ماحول فراہم کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں انہیں اپنی خود مختارانہ آزادانہ حالت برقرار رکھنے کیلئے چیئرمین کو مکمل انتظامی اختیارات ہونے چاہئیں۔ واضح رہے کہ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سندھ کا واحد بورڈ تھا جس کا انتظامی کنٹرول محکمہ تعلیم کے پاس تھا تاہم 2003ء میں محکمہ تعلیم نے اسے خود اس وقت کے گورنر سندھ محمد میاں سومرو کے حوالے کر دیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دور میں جب گورنر سرحد نے تعلیمی بورڈز کا کنٹرول محکمہ تعلیم سے لے لیا تو سرحد اسمبلی نے ایک بل کے ذریعے گورنر سے تعلیمی بورڈز واپس لے لئے تاہم اب جب سرحد میں بنوں تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کو ہٹایا گیا تو ایم ایم اے کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سرحد اکرم درانی نے کہا کہ ان سے غلطی ہو گئی تعلیمی بورڈز کو گورنر کے پاس ہی رہنا چاہئے تھا۔ جنگ نے گورنر سندھ کے پرسنل سیکرٹری نصر حیات سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کے یہاں سے جواب آتا کہ فون نمبر لکھوا دیں صاحب مصروف ہیں فارغ ہوئے تو بات کروا دیں گے تاہم 3 روز تک وہ فارغ نہیں ہوئے، اس طرح گورنر ہاؤس اسپیشل سیکرٹری برائے تعلیمی بورڈز رابعہ جویریا آغا بھی فون نہیں اٹھا رہی تھیں۔ سیکرٹری تعلیمی سندھ رضوان میمن نے جنگ کو بتایا کہ تعلیمی بورڈز اور محکمہ تعلیم کے درمیان رابطے کا فقدان ہے بورڈ کے چیئرمین وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دیتے بورڈز جس کے تمام چیئرمین، سکریٹریز اور ناظم امتحانات ریٹائرڈ افسران ہیں جبکہ سندھ میں صوبائی کابینہ کے فیصلے کے تحت تمام ریٹائرڈ افسران کو فارغ کیا جا چکا ہے ۔ بورڈ میں چیئرمین اور عہدیداروں کی تقرری کرتے وقت محکمہ تعلیم سے کوئی مشورہ نہیں کیا جاتا لہٰذا تعلیمی بورڈز اور محکمہ تعلیم کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔




شکریہ جنگ