Author Topic: پاکستانی معیشت ، چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ  (Read 1578 times)

Offline iram

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 3849
  • My Points +16/-3
  • Gender: Female
پاکستانی معیشت ، چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

پاکستان میں مختلف منصوبوں پر اربوں ڈالرکی چینی سرمایہ کاری اپنی جگہ لیکن ملکی معیشت پرچین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ بعض حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بھی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ایک سو سے زائد چینی کمپنیا ں اور بارہ ہزارچینی باشندے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔کراچی سے درہ خنجراب تک پھیلے ان منصوبوں میں زیادہ تر توانائی اور مواصلات سے متعلق ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس وقت تجارت کا حجم گزشتہ چند سالوں میں بڑھ کر بارہ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہےجبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں اٹھارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

پاکستان میں گوادر بندر گاہ کے کنٹرول سے لے کر بلوچستان میں سونے تانبے اور دیگر معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ریکوڈک میں کان کنی ہو یا حال ہی میں فور جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کا حصول چینی کمپنیاں ہر سمت نظر آتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی سابق حکومت اور بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت میں اقتصادی مشیر کے طور پر کام کرنے والے ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کا توازن واضح طور پر چین کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین آزاد تجارت کا معاہدہ کرتے وقت بھی پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ"ٹھیک ہے دوستی ہماری ہے لیکن جب چینی وفود اور چینی کمپنیوں کے نمائندے آتے ہیں تو وہ بحیثیت تاجر آتے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ اپنے لیے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سےکیا سودے بازی کرنی یہ رویہ ہمیں بدلنا پڑے گا "۔

پاکستانی معیشت پر چینی اثرونفوذ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک سے جوتا سازی، کاغذ سازی، چھوٹے برقی آلات، روز مرہ گھریلو استعمال کی مخلتف اشیاء بنانے کے کارخانے تیزی سے کم یا ختم ہورہے ہیں۔ اسلام آباد چییمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر کامران عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت کو چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو دیگر مراعات دینے کے ساتھ ساتھ قانون سازی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں اگر انہوں نے کسی طرح صنعت کو بچانا ہے توتوانائی کے بحران کو ختم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ملکی میعشت میں چھوٹے تاجر ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ریڑھ کی ہڈی کو کارآمد بنانا ہے تو فیصلہ سازی یا قانون سازی کے عمل میں چھوٹے تاجروں کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔"

پاکستان کے مؤقر انگریزی اخبار "ڈان" میں اقتصادی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سلامتی کی موجودہ صورتحال بھی چینی سرمایہ کاری میں اضافہ نظر آنے کا ایک سبب ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کی خراب صورتحال کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً امریکا اور یورپ کے سرمایہ کار پاکستان آنے سے کتراتے ہیں جس کا فائدہ پڑوسی ہونے کی وجہ سےچین کو پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ

"دونوں ملکوں کی جو حکومتیں ہیں ان کے آپس میں جو تعلقات رہتے ہیں ہمیشہ اس کی وجہ سے وہ پاکستان میں آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔لیکن اس کی قیمت ضرور ہے۔ ایک تو کام کا معیار ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عمل میں جو معیاری سرمایہ کار ہے اس کے لیے پاکستان میں کام کرنے کی جگہ اور گنجائش کم ہو رہی ہے"۔

پاکستان میں باقاعدہ منصوبوں سے ہٹ کر مخلتف کاروبار کرنے والے چینی باشندوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ ان میں سے زیادہ تر چینی باشندے چائینیز ریسٹورانٹس، بیوٹی پارلرز، مساج سینٹرز،فٹنس سینٹرز کے علاوہ شراب اور جسم فروشی کے غیر قانونی کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔
http://dw.de/p/1BqpA