Author Topic: Muslim Students Federation Pakistan. (1)  (Read 1972 times)

Offline Ray Kashif

  • Jr. Member
  • **
  • Posts: 78
  • My Points +0/-0
  • Gender: Male
  • Ok
Muslim Students Federation Pakistan. (1)
« on: August 03, 2015, 10:16:07 AM »
راقم الحروف کے اسکول کے دنوں کا واقعہ ہے کہ اچانک خبر آئی کہ کل سارے شہر کے اسکول بند رہیں گے۔ تمام طلباء کی طرح ہم بھی اس قسم کی حادثاتی نعمتوں کے شوقین تھے، لہذا بہت خوش ہوئے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ شہر میں موجود مشہور کالج میں دو گروہوں کے مابین لڑائی کے باعث دو غیر متعلق طلباء ہلاک ہو گئے اور مشتعل طلبہ نے اگلے روز ہڑتال کا مطالبہ کیا ہے۔ آج تک طلباء سیاست کے متعلق جب بھی کوئی بحث شروع ہوتی ہے تو میرے ذہن میں ان دو نوجوانوں کی اگلے روز اخبار میں چھپنے والی تصاویر گردش کرنے لگتی ہیں۔

کالج پہنچے تو معلوم ہوا کہ طلبہ سیاست نامی چڑیا یہاں پر نہیں مار سکتی۔ گیلانی صاحب کی حکومت آئی تو انہوں نے طلبہ یونینز بحال کرنے کا فیصلہ کیا، جو کہ انکی حکومت جانے کے بعد تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ ہمیں کچھ دیر کے لئے غیر سیاسی طلبہ تحریک میں حصہ لینے کا موقع ضرور ملا، جس کے کچھ منفی اثرات بھی بھگتنے پڑے۔

ان سب تلخ حقائق کے باوجود ہمارے ناقص خیال میں طلباء سیاست جمہوری روایات کے لیے بہت ضروری ہے اور اسی ضمن میں ہمیں طلبہ سیاست کی تاریخ پرایک مختصر نظرڈالنی چاہیے۔

برصغیر میں طلبہ سیاست کا باقاعدہ آغاز سن 1905 میں تقسیم بنگال کے موقع پر برطانوی راج کی مخالفت کے باوجود شروع ہوا۔ اس تحریک میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے سپیکر مولوی تمیز الدین خان نے بطور طالب علم حصہ لیا۔ جواب میں سرکار نے اس سال ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں نصف سے زیادہ طلباء کو فیل کر دیا۔

اس کے علاوہ پنجاب میں 1905 میں ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلبہ نے ہندوستانی طلبہ سے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی، جس کی قیادت مستقبل میں کانگرس پارٹی کے راہنما ڈاکٹر ستیہ پال نے کی۔

کچھ سال بعد تحریک ہجرت (1920) میں بھی بہت سے مسلمان طلبہ نے حصہ لیا۔ رولٹ ایکٹ اور اسکے نتیجے میں ہونے والے سانحہ جلیانوالہ باغ نے بھی طلبہ پر اثر ڈالا اور جلیانوالہ باغ کی راکھ سے بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی نمودار ہوئے۔

سن 1936 میں پہلی طلبہ جماعت ’آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ لکھنو میں قائم کی گئی۔ اس موقعے پر منعقد کردہ کانفرنس سے جناح صاحب اور جواہر لال نہرو نے خطاب کیا۔ حقیقت یہ تھی کہ اس تنظیم میں ہندو طلباء کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھی اور اس مسئلے کے تناظر میں 1937 میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام کلکتہ میں عمل میں آیا۔ اس تنظیم نے قیام پاکستان کی تحریک میں انتہائی موثر حصہ ادا کیا۔

تشکیلِ پاکستان کے بعد طلبہ تحریک کا از سر نو آغاز مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ سے ہوا۔ پاکستان بنتے ہی پنجابی شاونسٹوں اور مہاجروں کی اجارہ داری کے خلاف طلبہ نے احتجاج کا علم بلند کیا۔

مغربی پاکستان کے اقلیتی صوبوں کے راہنماؤں کے برعکس بنگال کے عوام کا مسئلہ اردو زبان یا قومی تشخص نہیں تھا بلکہ معاشی غلبے سے نجات پانا تھا۔ اس مطالبے اور زبان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی گئی جس کے عہدے داروں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شیخ مجیب بھی شامل تھے (اس سے قبل شیخ مجیب کئی سال سے مسلم لیگ کے ساتھ منسلک رہے تھے)۔

سن 1949 میں راولپنڈی میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) قائم کی گئی جس کی ایک شاخ 1952 میں سندھ میں قائم ہوئی۔ گورڈن کالج راولپنڈی میں بننے والی جماعت کے بانیوں میں خواجہ مسعود، ایوب مرزا اور علی امام شامل تھے۔

سندھ میں اس تنظیم کی قیادت ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء نے کی ۔ کراچی میں اس تنظیم [DSF] نے طلباء اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کی بہتری کے منشور پر کام کیا اور واضح مقبولیت حاصل کی۔ تنظیم نے مختلف تعلیمی اداروں کی غیر مناسب فیسوں کے مسئلے پر بھی احتجاج کیا مگر انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث بات ہنگاموں اور گرفتاریوں تک جا پہنچی۔

1954 میں اس تنظیم پر سرکاری پابندی عائد کر دی گئی۔ سن 1956 میں طلبہ تنظیموں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن[NSF] بنائی گئی، جس کی صفوں میں جلد ہی سابقہ ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹ فیڈریشن کے کارکنان نے برتری حاصل کرلی۔

ایوب مارشل لا لگنے کے بعد طلبہ تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ پابندی کے باوجود ایوب دور کے دوران البتہ طلبہ کسی نہ کسی طور حکومت کے خلاف برسر پیکار رہے۔ طلبہ کو نکیل ڈالنے کی خاطر ایک کمیشن قائم کیا گیا جس کو اسکے سربراہ کے نام پر شریف کمیشن کہا گیا۔

کمیشن نے طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے بہت سی سفارشات پیش کیں جو صدر ایوب نے فوری طور پر منظور کرلیں۔ ان سفارشات کے خلاف ملک بھر میں طلبہ نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں فاطمہ جناح نے بھی طلبہ کی حمایت کی۔

معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب کابینہ چھوڑنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے طلبہ کو ایوب مخالف تحریک میں موثر طور پر استعمال کیا اور اسی وجہ سے 1968 میں شروع ہونے والی اس عوامی تحریک میں طلبہ نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔

مشرقی پاکستان کے طلبہ نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور ایوب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ ان مظاہروں میں درجنوں طلباء نے اپنی جانیں قربان کیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس دور میں دنیا بھر کے بہت سے طلبہ بائیں بازو کی احتجاجی تحریکوں میں فعال تھے۔

امریکہ اور برطانیہ میں ویتنام کی جنگ کی مخالفت، جبکہ باقی مقامات پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحاریک زوروشور سے جاری تھیں۔ ایوب خان کے بعد یحیی خان نے اقتدار سنبھالا تو حالا ت کچھ بہتر ہوئے۔

جماعت اسلامی کے زیر اثر طلبہ جماعت ’اسلامی جمیعت طلبہ‘ کی ابتدا پاکستان کے قیام کے چند ماہ بعد ہوئی۔ اس تنظیم نے طلبہ سیاست میں باقاعدہ حصہ 1953 میں لینا شروع کیا اور پہلا باقاعدہ جلوس 1968 میں نکالا۔

دراصل یہ تنظیم بائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت سے گھبرا کر میدان میں اتری تھی۔ رفتہ رفتہ اس تنظیم نے فاشسٹ رویہ اختیار کر لیا اور ’نظریہ پاکستان‘ کی حمایت اور ’فحاشی‘ کی مخالفت شروع کی۔ اس تنظیم کا سب سے بڑا ’کارنامہ‘ مشرقی پاکستان میں فوج کے ساتھ مل کر بنگالی دانشوروں اور اساتذہ کا خون بہانا تھا۔ اس عمل میں بہاری افراد نے حسب توفیق حصہ لیا اور آج تک وہ اس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

(یاد رہے کہ بہار سے تعلق رکھنے والے افراد نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کا رخ کیا تھا البتہ اردو زبان کی حمایت کرنے کے باعث ان کو اپنے نئے وطن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے کے باعث بہاریوں کی اکثریت نے پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی کا ساتھ دیا۔)

بقول پروفیسر عزیزالدین خان ’جماعت اسلامی کی طرح جمیعت نے بھی اپنے آپ کو ہمیشہ عوام سے بلند اور خدا کی طرف سے منتخب کئے گئے صالحین کا ایک گروہ تصور کیا ہے۔ جن کا کام ان تمام باتوں کو، جنہیں وہ خدائی احکامات تصور کرتی ہے، طلبہ تک پہنچانا اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں پر جبراً نافذ کرنا ہے۔

جس طرح جماعت اسلامی کی نظر میں مرتد کی سزا موت ہے، جمیعت کی نظر میں غیر اسلامی تصورات رکھنے والے جن میں سوشلسٹ اور مغربی کلچر کے دلدادہ سبھی شامل ہیں، برداشت نہیں کیے جا سکتےتھے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہوئی تو ترقی پسند طلبہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ ابتدا میں بھٹو حکومت کے تعلیم کے شعبے میں کیے جانے والے اقدامات اقدام کو سراہا گیا، کیونکہ طلبہ کئی سال سے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اشرافیہ کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں کے دروازے عام طالب علموں کے لیے کھول دیے گئے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کی گئی، میٹرک تک تعلیم مفت دینے کا اعلان کیا گیا، اوپن یونیورسٹی قائم کی گئی۔ مگر جلد ہی بھٹو صاحب نے آمریت کی روش اختیار کی اور ان کے خلاف سب سے پہلے بلوچی طلبہ نے نعرہء بغاوت بلند کیا۔

بلوچ طلبہ کی جماعت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن 1967 میں کراچی میں قائم ہوئی۔ اسکا بنیادی مطالبہ ون یونٹ کا خاتمہ، بلوچ سرداری نظام کا خاتمہ اور بلوچ طلبہ میں قومی تشخص کو اجاگر کرنا تھا۔ اس تنظیم نے ایوب مخالف تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور بعد میں بھٹو دور میں بلوچستان میں ہونے والی گوریلا کاروائیوں میں BSF کے دونوں دھڑوں نے حصہ لیا ۔

بھٹو دور میں ہی پیپلز پارٹی کی طلبہ جماعت پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) قائم ہوئی۔ اس تنظیم میں زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلباء نے شمولیت اختیار کی۔

بشکریہ: ڈیلی ڈان
...