Author Topic: قومی زندگی میں ثقافتی مماثلتوں كا اظہار  (Read 1089 times)

Offline Abdullah gul

  • Teme-03
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 3411
  • My Points +3/-0
  • Gender: Male
right]
قومی زندگی میں ثقافتی مماثلتوں كا اظہار

    پاكستان كے چاروں صوبوں كی اپنی اپنی صوبائی زبانیں ہیں۔ یہاں كے باشندوں كے رسم و رواج اور طرز بود و باش میں كسی حد تك تہذیبی فرق تو موجود ہے لیكن علاقے اور زبان كے فرق كے باوجود لوگوں میں وقت كے ساتھ ساتھ ثقافتی مماثلتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہونے كے باوجود لوگ ایك دوسرے سے قربت كا احساس ركھتے ہیں اور آپس میں جڑے ہونے كا شعور ركھتے ہیں جس سے تشخص مستحكم ہوتا ہے جسے بجا طور پر حوصلہ افزا قرار دیا جا سكتا ہے۔

    پاكستان كے ثقافتی ورثے پر جنوبی ایشیا میں پروان چڑھنے والی اسلامی اقدار كے اثرات ہیں۔ مسلمانوں نے جنوبی ایشیا میں آ كر یہاں كے لوگوں كو ایك نیا طرز زندگی دیا، جس میں مساوات، بھائی چارے، اخوت، معاشرتی انصاف اور سچائی جیسی اقدار كو مركزی حیثیت حاصل ہے۔ ان نئی اقدار نے ذات پات كے نظام میں جكڑے ہوئے مقامی باشندوں كو بہت متاثر كیا اور تھوڑے ہی عرصے میں اسلام جنوبی ایشیا كے كونے كونے میں پھیل گیا۔

    مسلمان حكمرانوں كے دور میں علم و ادب، موسیقی، مصوری، تعمیرات، خطاطی اور لسانیات نے خوب ترقی كی۔ ان شعبوں میں مسلمان فنكاروں كے كار ہائے نمایاں ہمارا ثقافتی ورثہ ہیں اور ان كے حوالے سے ہمیں پہچانا جاتا ہے۔ پاكستان كے رہنے والوں كی علاقائی نسبت ﴿پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ﴾ مختلف ہونے كے باوجود ان كے درمیان برادرانہ احساسات پائے جاتے ہیں او رمماثل ایمان كے رشتے سے وحدت كا ماحول قائم رہتا ہے۔

    ہمارے مماثل ثقافتی ورثہ كا اظہار ہماری علاقائی شاعری اور ادب كی ان اقدار كے ذریعے ہوتا ہے جو تمام علاقوں كے ادب میں یكساں طور پر موجود ہیں۔ تصوف، انسانیت، صلح و انصاف، محبت اور باہمی تعاون كا درس قومی اور صوبائی زبانوں كے ادیبوں اور شاعروں كی تحریروں میں ملتا ہے۔ ان شاعروں میں سلطان باہو ، بلھے شاہ ، وارث شاہ  ﴿پنجاب سے﴾، شاہ عبداللطیف بھٹائی ، سچل سرمست  ﴿سندھ سے﴾، رحمان بابا  ﴿سرحد سے﴾ اور گل خاں نصیر  ﴿بلوچستان سے﴾ شامل ہے۔ ان سب بزرگوں نے محبت، الفت اور اخوت كا ایك جیسا سبق دیا ہے۔ یوں لگتا ہے كہ ایك ہی پیغام ایك ہی بزرگ نے مختلف زبانوں میں دیا ہو۔ اس طرح بنیادی طور پر ثقافت كی مماثلت كا رنگ ہی ابھرتا ہے۔ ہمارے مقامی ذرائع ابلاغ مماثل اور متنوع ثقافتی عناصر كے اظہار كا ذریعہ ہیں۔ اس سے قومی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور ثقافتی مماثلتوں كا ورثہ پھلتا پھولتا ہے۔

    ثقافت كے تسلسل كے لیے بچوں كے اذہان كی قومی خطوط پر تربیت كی جاتی ہے اور مماثل، مشترك ثقافتی اقداران كو ذہن نشین كروائی جاتی ہیں۔ تعلیمی نظام اور پڑھائے جانے والے مضامین او رموضوعات بھی ثقافتی مماثلتوں پر توجہ مركوز كرنے كا باعث ہوتے ہیں۔ اس سے مشتركہ ثقافتی قدروں كو فروغ ملتا ہے۔ اسی لیے نظام تعلیم كے اہم خدوخال كو تشكیل دینے كی ذمہ داری وفاقی حكومت نے اپنے پاس ركھی ہوئی ہے۔ اس سے قوم كی نظریاتی سمت درست رہے گی اور نئی نسل كا مقامی ثقافتی ورثے سے لگاوٕ قائم رہے گا۔

[/right]