Author Topic: لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ایک نشت منو بھائی کی زبانی  (Read 2180 times)

Offline iram

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 3849
  • My Points +16/-3
  • Gender: Female
   لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ایک نشت منو بھائی کی زبانی

زمین پر جنت تعمیر کرنے کا عمل...گریبان …منوبھائی
   
دس فروری کی دوپہر کو لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ (میس کمیونی کمیشن) کی طالبات پروفیسر انجم اور ان کی ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ دو گھنٹوں سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ”ذہنی انٹرایکشن“ کی تقریب سے شائد طالبات نے بھی کوئی فائدہ اٹھایا ہوگامگر میرے اپنے خیالات اور تصورات کوبہت تقویت ملی۔ مجھے یادآیا کہ 1983 میں اپنی زندگی کی پچاسویں سالگرہ پر جو صحافت کے میدان میں میری پچیسوں سالگرہ بنتی تھی پوچھا گیا کہ ”صحافت کے مستقبل کے بارے میں کیااندازے ہیں؟“ میں نے جواب دیا تھا اور ان کالموں میں یہ بھی لکھا تھا کہ”اگرہمارے ملک کی پڑھی لکھی خواتین نے صحافت کے پرخار میدان میں اترنے کی جرأت کی تو صحافت کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا اور اگر کارکن صحافیوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہوگئی تو یہ مستقبل محفوظ کے علاوہ مامون بھی ہوجائے گا۔“
مذکورہ بالا تقریب میں روشن دماغ طالبات کے چونکادینے والے ، پریشان کردینے والے اور لاجواب کردینے والے بعض سوالات سے یہ یقین اور زیادہ پختہ ہو گیا کہ اپنی پچاسویں سالگرہ پر میں نے صحیح اندازے لگائے تھے۔نئی نسل سے تعلق رکھنے والے طلبا اور طالبات کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کی زبان اور لب و لہجہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نسل اپنی معروض سے کس حد تک آشنا ہے اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے زمینی حقائق کاکتنا ادراک اور شعور رکھتی ہے۔ شعبہ ابلاغیات کی طالبات کے سوالوں سے جہاں یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ہمارے طلبا سے زیادہ معروضی حالات کو جانتی ہیں اورزمینی حقائق سے بھی زیاد ہ باخبر ہیں وہاں ان کی باتوں سے ان کے اندر مچلنے والے شوق کی بجلیوں کی چمک بھی دکھائی دیتی تھی۔
 بیشتر طالبات اس فکر میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں کہ انہیں اپنے علم کو عملی زندگی میں بروئے کار لانے اور اپنے شوق کی تسکین کے مواقع نہیں مل سکیں گے۔ بلاشبہ ان کے پاس اس اندیشے کا تعلق ملک اور قوم کے علاوہ خود صحافت سے بھی ہے جس کو اپنے شعبے میں ”جینڈر بیلنس“ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ قومی صحافت میں خواتین کی نمائندگی قومی سطح پر ان کے مردوں کے ساتھ تناسب کے برابر ہونی چاہئے اور اس کے لئے مناسب اور موزوں معاشرتی ماحول پیداکرنے اور قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس تقریب میں موجود بیشتر طالبات کو یہ پریشانی لاحق دکھائی دیتی تھی کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا بیشتر سے زیادہ وقت سیاست کے اتار چڑھاؤ کی نذر کیوں ہو جاتا ہے جبکہ معیشت اور معاشرت کے دیگر بے شمار پہلو اورموضوعات ہیں جن پر تبصرہ کیاجاسکتا ہے اور سب سے زیادہ ضرورت ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ہے جس کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ صحافت اور ذرائع ابلاغ کو علم اور عمل کے نئے افق دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے اصل مسائل اور بنیادی حقائق کو زیربحث لانے اور نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معلوم کرنے اور بتانے کی ضرورت بھی ہے کہ ہم اپنے ملک میں جمہوری نظام چاہتے ہیں تو انتخابات میں ووٹ دینے کیوں نہیں جاتے۔ اگر ہم اپنے ماحول میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود اپنے آپ پر بھی جمہوریت نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بہن بھائیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، ساتھیوں، ماتحتوں اور ملازموں کے ساتھ بھی جمہوری سلوک کرنا چاہئے۔
بہت سی طالبات نے یہ خیال ظاہر کیاکہ خواتین کے جائز حقوق کو منوانے کی جدوجہد میں ہمیں انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مردوں کے خلاف محاذآرائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اگر یہ چاہتی ہیں کہ مرد حضرات خواتین کو بھی انسان سمجھیں تو ہمیں مرد حضرات کو بھی انسان سمجھنا چاہئے او ر اسے اس کی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں سب لوگوں کو مثالی حالات میسر نہیں آسکتے بیشتر سے زیادہ لوگوں کو معروضی حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اور معروضی حالات کو مثالی حالات میں تبدیل کرنے میں ہی پوری زندگی گزر جاتی ہے اور یہ عمل زمین پر جنت تعمیر کرنے کا عمل ہے اور اس عمل کی بنیادی محرک حوا کی بیٹی عورت ہے۔
چند سال پہلے جب میں نے لاہور کالج فار ویمن کے شعبہ ابلاغ عامہ کو دیکھا تھا تو ایک ایک کمپیوٹر پر چھ چھ سات سات بچیاں کچھ ایسے مصروف دکھائی دیتی تھیں جیسے شہد کے چھتے پر مکھیاں ہوں مگر اس کالج کے یونیورسٹی میں تبدیل ہونے اور نئی عمارت تعمیر ہونے کے بعد اب انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے اور سیکھنے والی بچیوں کی آسودگی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ٹیلیویژن کے پروگرام بھی تیار کر رہی ہیں، ریڈیو نشریات میں حصہ لے رہی ہیں۔ دستاویزی پروگرام بھی تیار کر رہی ہیں اور اس کالج کے شعبہ ابلاغ عامہ سے فارغ التحصیل ہونے والی بہت سی طالبات اپنے ملک کے اندر اوربیرونی ملکوں میں اپنے کمیونی کیشن کے علم سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس تقریب کے تجربے سے گزرنے کے بعد میری یہ خواہش ہوئی کہ ہمارے ملک کے سرکردہ صحافیوں، نیوز کاسٹرز اور ٹیلی کاسٹرز کو اپنے ملک کے جواں سال اور تازہ ذہن طلبا اور طالبات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ”ذہنی انٹر ایکشن“ کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے جہاں نئی نسل اپنے بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی وہاں ہمارے بزرگ بھی آنے والے حالات اور مستقبل کے معروضی اور خیالات میںآ نے والی تبدیلیوں سے آگاہی حاصل کریں گے۔نئی اور پرانی نسلوں کے درمیان ”ذہنی انٹرایکشن“ صرف ابلاغیات کے شعبے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے۔ علم اور فن کے دیگر شعبوں میں بھی ماضی اور حال کے ”انٹر ایکشن“ سے بہتر مستقبل کو استوار کرنے کی راہیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔آنے والے حالات کی تیزرفتاری یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہم بزرگوں کے تجربے اور نئی نسل کے جوش، ولولہ اور ہمت کو ملا کر ایک اجتماعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کریں بلاشبہ یہ قوت ایٹمی قوت سے بھی زیادہ طاقتور ہوگی۔ غور کیاجائے تو پاکستان کی 60 فیصد آبادی اگر نوجوانوں پر مشتمل ہے تو ہماری یہ ساٹھ فیصد آبادی معیشت ، معاشرت اورماحولیات میں ابابیلوں کا کردار کیوں ادا نہیں کرسکتی جو آتش نمرود کو گلزار خلیل میں تبدیل کرنے اور ہاتھیوں کے لشکر کو تباہ و برباد کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتی ہیں۔شکریہ جنگ