Author Topic: (پرویز مشرف مستعفی )صدر پرویز مشرف کا آخری مکمل خطاب تحریر شکل میں  (Read 2301 times)

Offline عادل

  • Sr. Member
  • ****
  • Posts: 444
  • My Points +0/-0
  • Gender: Male

صدر پرویز مشرف کا آخری مکمل خطاب تحریر شکل میں

صدرپرویز مشرف کا وسیع تر قومی مفاد میں صدارت سے مستعفی
Monday, 18 August 2008

صدرپرویز مشرف کا وسیع تر قومی مفاد میں صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان
ملک اورقوم کو مزید بحران اور عدم استحکام سے دوچار نہیں کرنا چاہتا، مواخذہ پارلیمنٹ کا اور دفاع میرا حق ہے
 مواخذہ کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں نقصان ملک کا ہوگا
صدر پرویز مشرف کا ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے آخری خطاب(مکمل خطاب تحریر شکل میں )


 اسلام آباد ۔ 18 اگست (اے پی پی) صدر پرویز مشرف نے ملک کو مزید محاذ آرائی اور عدم استحکام سے بچانے کیلئے ملک کے وسیع تر مفاد میں پیر کو اپنے عہدے سے استعفی دینے کا اعلان کر دیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے مستعفیٰ ہونے والے صدر پرویز مشرف نے کہا کہ اپنے ساتھیوں اور قانونی مشیروں سے مشاورت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں وہ اپنا استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی کو بھیج رہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ ملک بحران سے گزر رہا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی کسی اقدام سے غیر یقینی کی فضا مزید طویل نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ مواخذہ پارلیمنٹ کا اور دفاع ان کا حق ہے۔ مواخذہ کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں نقصان ملک کا ہوگا۔ ایوان صدر کے تعلقات حکومت کے ساتھ بہترین نہیں رہیں گے اور اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ریاست کے دو ستونوں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین کشیدگی کا آغاز ہو جائے گا۔ خدانخواستہ فوج بھی ایسی صورتحال میں مداخلت کر سکتی ہے۔ لہذا صورتحال کا مکمل جائزہ لے کر اور اپنے قانونی مشیروں اور سیاسی حمایتیوں سے مشاورت کے بعد انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر نے کہا کہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ صدر نے اپنے خطاب میں اپنے خلاف عائد کئے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے 9 سالہ دور اقتدار میں حاصل کی گئی کامیابیاں گنوائیں جن میں اقتصادی ترقی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میںاضافہ خاص طور سے قبل ذکر ہے۔ صدر نے کہا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اورمقامی حکومتوں کا نظام انہوں نے متعارف کروایا۔ انہوں نے اس الزام کو بھی مسترد کردیا کہ ایوان صدر میں منتخب حکومت کے خلاف سازشیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اہم فیصلوں میں تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی۔ صدر نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اداروں کے درمیان تصادم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا مجھے احساس ہے اور آپ سب بھی اس سے باخبر ہیں، آج کا دن میرے لئے اہم فیصلوں کا دن ہے، 9 سال قبل جب میں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کو ایک دہشتگرد اور معاشی لحاظ سے ناکام ریاست قرار دیا جانے والا تھا، اس وقت میرے ذہن میں ایک ہی خیال کہ اپنے ملک کو بچانا ہے اور اسے ترقی کی طرف لے جانا ہے ، مجھے اپنے اوپر یقین اور اللہ پر بھروسہ تھا کہ اگر کام محنت، دیانتداری اور ایمانداری سے کیا جائے تو اللہ کی مدد میسر ہوتی ہے اور مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 سالوں کے دوران میں نے اسی جذبے کے ساتھ ملک کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا۔ اس عرصہ کے دوران ملک کو جن چیلنجوں اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا وہ اس سے پہلے کسی دور میں پیش نہیں آئے تھے، خواہ وہ 2000ءمیں خشک سالی کا مقابلہ کرنا اور عوام کو مصیبت سے نجات دلانا ہو یا ملک کی معاشی صورتحال ہو، 2001ءمیں ہندوستان کے ساتھ محاذآرائی کی کیفیت ہو جب 10 ماہ تک ملک پر جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے، نائن الیون کا سانحہ ہو جس کے بالخصوص ہمارے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے یا پھر 2005ءمیں زلزلہ کی آفت ہو جس سے کشمیر، سرحد اور شمالی علاقہ جات میں تباہی کو مواقع میں بدلنے کا چیلنج درپیش تھا۔ ان تمام بحرانوں میں اللہ کی مدد شامل حال رہی اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستان اور اس کے عوام کو محفوظ رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر کام میں میری نیت صاف رہی اور جب بھی کوئی مشکل یا سانحہ درپیش ہوا تو میں نے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک اور قوم کے مفادات کو ترجیح دی۔ میں نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ قوم کو دیا یہ محض ایک نعرہ یا دکھاوا نہ تھا بلکہ یہ میرے دل کی آواز تھی اور مستقبل میں بھی یہ آوازرہے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ملک کےلئے دو جنگیں لڑیں اور ہمیشہ ملک کےلئے اپنی جان کا نذرانہ دینے کےلئے تیار رہا اور مجھے فخر ہے کہ میں آج بھی اسی جذبے پر قائم ہوں اور آئندہ بھی اسی جذبے پر قائم رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض عناصر ذاتی مفاد کو ملک کے مفاد پر ترجیح دیتے آئے ہیں اور انہوں نے مجھ پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے۔ یہ لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناتے رہے اور عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہے۔ ان لوگوں کو یہ احساس نہ ہوا کہ اس طرح انہیں شاید میرے خلاف تو کامیابی حاصل ہوجائے لیکن عوام اور ملک کو اس سے کتنا نقصان ہوگا ، یہ پراپیگنڈہ سراسر غلط ہے کہ گزشتہ9 سال میں ہماری پالیسیاں غلط رہیں اور جس معاشی تباہی کی طرف اس وقت ملک گامزن ہے وہ ہماری پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ بجلی کے بحران کا ہمیں ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے، یہ تمام باتیں غلط اور ملک وقوم کے ساتھ ایک فریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 مہینے پہلے دسمبر 2007ءمیں معیشت پر نظر ڈالیں تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک بلکہ پختہ تھی، ہماری جی ڈی پی 7 فیصد کی شرح نمو سے بڑھ رہی تھی۔ ملک کی تجارت کا حجم 63 ارب سے بڑھ کر 170 ارب ڈالر پر پہنچ گیا، ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تھے، ریونیو کی وصولیاں ایک ٹریلین یعنی ایک ہزار ارب تک پہنچ چکی تھیں، سٹاک ایکسچینج انڈیکس تقریباً16 ہزار کے قریب تھا اور ایکسچینج ریٹ کی قیمت 8 سال میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 60 روپے کے اردگرد رہی۔ یہ وہ تمام بنیادی معاشی اعشاریے تھے جو ملک کی معاشی خوشحالی کی صورتحال کو واضح کر رہے تھے۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے ہی دنیا میں معیشت جانچنے والے بڑے اداروں نے پاکستان کو این 11 میں شامل کیا تھا یعنی پاکستان کو ان گیارہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا جو معاشی طور پر انتہائی تیزی سے ترقی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے معاشی حالت خراب ہوئی، ملک کی معاشی حالت اور اقتصادی تیز ترین ترقی کی وجہ سے گزشتہ سات آٹھ سال میں بجلی کی طلب میں بے حد اضافہ ہوا تاہم اس بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب کے مقابلے میں پیداوار میں بھی اسی رفتار سے اضافہ نہیں ہوسکا تاہم یہ کہنا کہ بجلی کی پیداوار میں گزشتہ سالوں کے دوران کوئی اضافہ نہیں ہوا درست نہیں کیونکہ گزشتہ سالوں کے دوران 3 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا ہوئی تاہم یہ تیز ترین ملکی ترقی اور بجلی کی طلب میں اضافہ کے مقابلے میںناکافی رہی۔ انہوں نے کہا کہ اب ملک کی صورتحال ایسے ہے کہ جون 2007ءمیں ملک میں 14 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی تھی جو اب 2008ءمیں 10 ہزار میگاواٹ پیدا ہورہی ہے۔ صدر نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں ( آئی پی پیز) کو بجلی کی پیداوار پر ادائیگی نہیں ہورہی اس لئے وہ بجلی کم پیدا کررہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کو دیکھیں اور حکومت کو مستقبل کو دیکھتے ہوئے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہئے اور ان مسائل کو حل کرتے ہوئے ملک کو آگے کی طرف لے کر جائیں۔ یہ صرف 8 ماہ پہلے کی بات ہے، معاشی بحران تو چھ ماہ پہلے شروع ہوا ، ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے نیچے چلے گئے ہیں،8 سال تک ایکسچینج ریٹ جو 60 روپے پر رہا آج 77 روپے پر چلا گیا ہے، سٹاک ایکسچینج انڈیکس 10 ہزار کے اردرگرد ہے جبکہ لوگ بیرون ملک اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ ان تمام حالات کا اثر عوام پر مہنگائی کی صورت میں مرتب ہورہا ہے اور آٹا، دال، گھی اور دیگر بنیادی اشیاءکی قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر خوراک کا بحران، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ، برآمدی گندم اور بیجوں کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس پر اثر انداز ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ 9 سال میں ہر شعبہ کو ہم نے ترقی دی۔ سڑکوں اور مواصلاتی نظام کو ترقی دینے کےلئے متعدد منصوبے مکمل کئے گئے ، ایم ٹو کا بہت چرچہ کیا جاتا ہے ہم نے 750 کلومیٹر کوسٹل ہائی وے بنائی، پشاور سے راولپنڈی تک ایم ون، لاہور سے فیصل آباد تک ایم تھری، اسلام آباد سے مری تک ایکسپریس ہائی وے، کراچی ناردرن بائی پاس، لواری ٹنل، گوادر رتو ڈیرو روڈ اور شمالی علاقہ جات میں سڑکیں تعمیر کرنے کے علاوہ ملک بھر میں شاہرات تعمیر کی گئیں۔ گزشتہ 30 سال میں کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا گیا تھا ہم نے میرانی، سبکزئی، ست پارہ ڈیم مکمل کرکے ان کا افتتاح بھی کردیا۔ منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش دوگنا ہوگئی ہے جس سے ملک کی زراعت کو بے حد فائدہ ملے گا۔ گومل زام ڈیم پر کام جاری ہے، کچھی کینال ، رینی کینال اور ٹل کینال پر کام جاری ہے، 65 ارب روپے کی لاگت سے چاروں صوبوں میں کھالوں کو پختہ کیا جارہا ہے جس کا فائدہ دور دراز کے کاشتکاروں کو ملے گا۔ گوادر کی بندرگاہ بن چکی ہے، ٹیلی کام سیکڑ میں انقلاب آچکا ہے، آج ملک میں 8 کروڑ موبائل فون ہیں ملک میں ہر طرف صنعتیں پھیل رہی تھیں، ملک میں اور بیرون ملک سے آنے والے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، اسلام آباد میں نئے چار پانچ ہوٹل بنائے جارہے تھے کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں بھرپور آمد ہورہی تھی اور بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے اور نئی صنعتوں کے قیام سے لوگوں کو روزگار مل رہا تھا جس کی وجہ سے غربت کی شرح 34 فیصد سے کم ہوکر24 فیصد پر آگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ پر بھی ہم نے خاص طور پر توجہ دی اور خواندگی میں اضافے کےلئے پرائمری، سکینڈری اور اعلیٰ تعلیم کے علاوہ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کےلئے ووکیشنل تعلیم کے فروغ کےلئے ٹھوس اقدامات کئے گئے، ہائیر ایجوکیشن کے میدان میں بیرون ملک کی 9 یونیورسٹیوں نے ہمارے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کئے۔ آج میں فخر سے کہتا ہوں کہ 2010ءتک ملک میں ڈیڑھ ہزار پی ایچ ڈیز ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبہ میں ہم نے پرائمری اور سکینڈری ہیلتھ کیئر کو ترجیح دی اور ملک میں بے شمار ہیلتھ یونٹس اور تحصیل ہسپتالوں کو بہتر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کےلئے 6ہزار پانی صاف کرنے والے پلانٹس کا منصوبہ شروع کیا تاکہ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی ترقی اور انہیں بااختیار بنانے کے منصوبے شروع کئے گئے تاکہ وہ معاشرے میں برابری کی بنیاد پر اپنا جائز کردار ادا کرسکیں کیونکہ خواتین کی ترقی کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہماری اصلاحات کے نتیجے میں ہی آج تمام اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی موجود ہے اور خواتین سے ناانصافیوں کے خاتمے کےلئے غیرت کے نام پر قتل اور حدود آرڈیننس کا خاتمہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور وہ خوش ہیں کہ ان کےلئے نہ صرف مخلوط طرز انتخاب رائج کیا بلکہ مخصوص نشستوں کو بھی برقرار رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کی ثقافت اور ثقافتی ورثے کو بھی تحفظ دیا کیونکہ ہر ملک کو اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ کرنا چاہئے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ ہم کتنی ذرخیز ثقافت کے مالک ہیں۔ مزار قائدکی تزئین وآرائش کی وجہ سے آج وہاں عوام کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے، اسلام آباد میں ہیرٹیج میوزیم اور یادگار تعمیر کی جس کے ساتھ میوزیم بھی تعمیر کیا جارہا ہے جو عوام کو تحریک پاکستان کے بارے میں آگاہ کرے گا۔ اسلام آباد میں آرٹ گیلری ، والٹن لاہور میں خوبصورت باب پاکستان بنایا گیا اور کراچی میں نیپا( نیشنل اکیڈمی پرفارمنگ آرٹس) قائم کی جہاں سے لڑکے اور لڑکیاں تین سالہ کورس کر کے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں اور اب انہیں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف یہ بات کی جاتی ہے کہ میں جمہوریت کے خلاف ہوں جو غلط ہے، ہم نے ملک میں حقیقی جمہوریت اور لوکل گورنمنٹ کا نظام متعارف کرایا تاکہ پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد کے درمیان خلیج کا خاتمہ ہو، اس نظام کو ختم کرنے کی باتیں کرنے والے پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دو دفعہ بلدیاتی سطح پر اور سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جو جمہوریت کی حقیقی روح ہے۔ 1999ءسے قبل دنیا میں پاکستان کی کوئی پہچان نہیں تھی، پاکستان کو کوئی جانتا نہ تھا، اب ہماری بات سنی اور اسے اہمیت دی جاتی ہے، ہم نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ڈالا اور اسے اہم رتبہ دلایا جو اب بھی قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر بنایا ، میرٹ پر نئی برتیاں کیں اور انہیں جدید تربیت، اہلیت اور ہتھیاروں سے لیس کیا اور فورینزک لیبارٹریاں بہتر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اہم شخصیات کے ساتھ کلاشنکوف بردار ہوتے تھے جو اب نہیں ہوتے، یہ ہماری کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد دہشتگردی، خودکش دھماکوں اور حملوں کا ایک نیا کلچر شروع ہوا جس نے پوری قوم کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر نمٹنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابیوں پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونرزکانفرنس میں 80 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، ہمیں 5 ارب ڈالر کی ضرورت تھی جبکہ ساڑھے چھ ارب ڈالر کے وعدے کئے گئے۔ مجھے ان کامیابیوں پر فخر ہے، یہ تمام کامیابیاں پاکستان اور عوام کےلئے حاصل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہمیشہ مفاہمت کےلئے رہی۔ میں نے کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی نہ کسی کے ساتھ انتقامی رویہ رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین مراحل میں ٹرانزیشن کی بات کی۔ گزشتہ سال اس کا تیسرا مرحلہ اس وقت آیا جب میں نے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ کر شفاف وشفاف انتخابات کرائے اور خوش اسلوبی سے انتقال اقتدار کا مرحلہ طے ہوا جسے پوری دنیا مانتی ہے۔ 18 فروری کے انتخابات کے بعد عوام کی نئی حکومت سے امیدیں اور توقعات وابستہ ہوئیں، لیکن بدقسمتی سے مفاہمت کی فضا پیدا کرنے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف دیکھنے کی میری تمام اپیلیں اورکوششیں ناکام ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام لگایاگیا کہ ایوان صدر میں سازشیں ہوتی ہیں جو بے بنیاد اور حقائق کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بلا مقابلہ منتخب ہوئے، سندھ میں ایم کیو ایم کو ملا کر حکومت اور بلوچستان میں صحت مند اپوزیشن بنی اور بجٹ خوش اسلوبی سے پاس ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں کسی حکومت یا شخص کے خلاف سازش کر رہا ہوتا تو یہ سب کیسے ممکن تھا۔انہوں نے کہا کہ مواخذہ کرنا اور چارج شیٹ دینا پارلیمنٹ کا حق ہے جبکہ جواب دینا میرا بھی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خود پر یقین ہے اور اللہ پر بھروسہ ہے کہ میرے خلاف کوئی چارج شیٹ سٹینڈ نہیں کرسکتی اور ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ میں نے اپنی ذات کےلئے کچھ نہیں کیا جو بھی کیا سب سے پہلے پاکستان کے نظریے اور سوچ کے تحت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عوام بالخصوص غریب عوام کا درد ہمیشہ اپنے دل میں رکھا اور ہر فیصلہ تمام فریقین کی مشاورت سے انہیں اعتماد میں لے کر کیا جن بیوروکریٹس، سول سوسائٹی کے ممبران اور بعض معاملات میں علماءکرام بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کسی چارج شیٹ سے کوئی ڈر اور فکر نہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مواخذے کو ذاتی انا کا مسئلہ بنایا جائے تو اس کا ملک پر کیا اثر ہوگا، کیا ملک مزید عدم استحکام اور غیر یقینی برداشت کرسکتا ہے، کیا ملک محاذ آرائی کی فضا سہ سکتا ہے، کیا ملک کی معیشت مزید دباﺅ برداشت کرسکتی ہے، کیا یہ صحیح ہوگا کہ کے صدر کا عہدہ جو قوم کی وحدت کی علامت ہے کو مواخذے کے عمل سے گزارا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں مواخذہ ہاروں یا جیتوں ہر صورت میں قوم کی شکست ہوگی اور ملک اور صدر کے عہدے کے وقار اور آبرو کو ٹھیس پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے دل میں کچھ اور خیال بھی آئے، بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ملک جن بحرانوں سے گزررہا ہے اس میں میں کچھ کروں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ملک اور عوام کو بحرانوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ میرے ذہن میں پارلیمنٹ کو ہارس ٹریڈنگ سے بچانے کا خیال بھی آتا ہے لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ اپنے ساتھیوں کو کیوں ایک مشکل صورتحال میں ڈالوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے خلاف مواخذہ ناکام بھی ہوجائے تو میرے خیال میں حکومت کے ایوان صدر سے تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے اور اداروں کے مابین اور ملک میں کشیدگی برقرار رہے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ریاست کے ستونوں یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشیدگی اور اختلاف ہوجائے اور خدانخواستہ کہیں فوج بھی اس میں ملوث نہ ہوجائے لہٰذا اس تمام صورتحال کا جائزہ لے کر اور اپنے قانونی مشیروں اور قریبی سیاسی حامیوں سے مشاورت کر کے اور ان کی ایڈوائس لے کر میں ملک اور قوم کی خاطر آج اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتا ہوں اور آج سپیکر قومی اسمبلی کو میرا استعفیٰ پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہئے میں اپنے مستقبل کو قوم اور عوام کے ہاتھوں میں چھوڑتا ہوں ، انہیں فیصلہ کرنے دیں، میں اس اطمینان اور تسلی سے جارہا ہوں کہ جو بھی عوام اور ملک کےلئے کر سکتا تھا وہ میں نے ایمانداری اور دیانتداری سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری نیت ہمیشہ صاف تھی اس میں کوئی کھوٹ نہیں تھا ہوسکتا ہے غیر ارادی طور پر کوتاہی ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آج یہ رنج اور پریشانی ہے کہ پاکستان تیزی سے نیچے کی طرف جاتا نظر آرہا ہے، غریب عوام پس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حکومت عوام کو ان پریشانیوں سے نجات دلانے کی پوری کوشش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی انتہائی خوشی ہے کہ میں ایک متحرک اور فعال میڈیا چھوڑ کر جارہا ہوں جو ذمہ داری سے کام کرتا رہے گا۔ میں اپنے سپورٹرز سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ میرے اس حقیقت پسندانہ فیصلے کو ملک اور قوم کی خاطر قبول کریں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ میرے بغیر بھی یہ عوام اور قوم اتنی ہی طاقت سے ابھرے گی جس کا مظاہرہ قوم نے ہمیشہ کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد کہا جارہا تھا کہ یہ ملک قائم نہیں رہے گا لیکن قوم میں جرات، طاقت اور ہمت تھی جو اسے آگے لے گئی۔ آج بھی اسی جذبہ حب الوطنی ، جرات اور ہمت کی ضرورت ہے جو ملک کو بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم میں وہ صلاحیت اور وسائل موجود ہیں جو بین الاقوامی صورتحال کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ضروری ہےں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر آرمی، ایئرفورس اور نیوی سمیت افواج پاکستان کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنائیت دی جسے میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ انہوں نے کہا کہ جس دلیری ، بہادری اور حب الوطنی سے افواج پاکستان نے ملک کو بچایا ، ملک اور عوام کی حفاظت کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس پر میں افواج پاکستان کو سلوٹ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے جس دلیری اور بہادری سے دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں یہ بے مثال ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی و غیر سیاسی رفقائے کار، بیورو کریٹس اور اپنے سٹاف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان سب لوگوں نے حکومت چلانے میں میری بھرپور مدد کی اور حکومت کو مختلف اہداف حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے کردار کو کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ میرا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے ہے، اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ میں عوام میں سے ہوں، ان کا دکھ، زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کا مجھے پورا احساس ہے، میں عوام کی جانب سے ان کی حمایت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میری والدہ کی دعائیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں، میری اہلیہ اور بچوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور بلاشبہ یہ میری طاقت ہے۔ انہوں نے دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے، اس ملک کو سازشوں سے محفوظ رکھتے ہوئے عوام کی مشکلیں آسان کرے۔ انہوں نے کہاکہ میری جان ہمیشہ اس ملک اور قوم کیلئے اسی طرح حاضر رہے گی جیسے پہلے حاضر رہی اور آئندہ بھی اپنی قوم اور ملک کیلئے میری جان حاضر رہے گی۔

VIST LARGETS EDUCATIONAL  WEB OF Pakistan www.pakstudy.com
Pak Study