Author Topic: بلوچستان آباد کار اساتذہ کی ہلاکتوں کے بعداساتذہ عدم تحفظ کا شکار  (Read 1623 times)

Offline معلم

  • Good Member Group
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 2147
  • My Points +0/-0
  • Gender: Female

بلوچستان آباد کار اساتذہ کی ہلاکتوں کے بعداساتذہ عدم تحفظ کا شکار

بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کافی عرصے سے جاری ہیں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں آباد کار اساتذہ کی ہلاکتوں کے بعد سکول کی سطح پر پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت نے بلوچ علاقوں میں خوف کی وجہ سے مزید پڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔

آباد کار اساتذہ نے محکمہ تعلیم کو کوئٹہ اور دیگر پشتون علاقوں میں تبادلے کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔

بلوچستان کے مختلف سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد تقریباً پچاس ہزار سے زائد ہے اور اس میں نصف سے زائد اساتذہ کاتعلق پنجاب خاص طور پر ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ بلوچ اکثریتی آبادی والے اضلاع میں پڑھانے والے آباد کار اساتذہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔

خضدار، قلات ، مستونگ اور کوئٹہ میں اساتذہ اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاکتوں کے بعد اساتذہ کی اکثریت میں خوف وہراس پھیل چکا ہے۔

    بلوچ علاقوں میں ساڑھے چار ہزار اساتذہ کی جانوں کوخطرہ ہے اور خوف کی حالت میں وہ بچوں کو پڑھانے کے قابل نہیں ہیں۔ ان اساتذہ کی اکثریت نے کوئٹہ اور پشتون علاقوں میں تبادلے کے درخواستیں دے رکھی ہیں

خیرمحمد شاہین

بلوچستان سکول ٹیچرز یونین کے صدر خیر محمد شاہین نے کہا کہ بلوچ علاقوں میں ساڑھے چار ہزار اساتذہ کی جانوں کوخطرہ ہے اور خوف کی حالت میں وہ بچوں کو پڑھانے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اساتذہ کی اکثریت نے کوئٹہ اور پشتون علاقوں میں تبادلے کے درخواستیں دے رکھی ہیں۔

خیر محمد شاہین نے کہا کہ بلوچ علاقوں میں نظام تعلیم کوبچانے کے لیے حکومت کوفوری طور پر کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے بلوچ اساتذہ کو تعینات کرناچاہیے کیونکہ بلوچستان میں تو ویسے بھی تعلیم کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور آباد کار اساتذہ کے بلوچ علاقوں سے نکلنے کے بعد تو وہاں تعلیمی نظام بالکل تباہ ہوجائے گا۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے نائب صدر اور سابق رکن صوبائی اسمبلی عبدالرحیم زیارتوال نے آباد کار اساتذہ کی پشتون علاقوں میں تبادلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اگر صوبائی حکومت ان اساتذہ کا تبادلہ ان کی پوسٹوں کے ساتھ کرتی ہے تو پشتونوں کوان اساتذہ کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اگر حکومت ان اساتذہ کو پشتونوں کی پوسٹوں پر تعینات کرے گی تو ہم ان کی سخت مخالفت کریں گے کیونکہ یہ پشتونوں کی حق تلفی ہوگی ۔

    خضدار ریذیڈنشل کالج کے وائس پرنسپل اس کے علاوہ قلات اور کوئٹہ میں پروفیسروں کی ہلاکتوں کے بعد خضدار ریذیڈنشل کالج کے چودہ اساتذہ کا عارضی طور پر کوئٹہ تبادلہ کردیاگیا ہے اور باقی اساتذہ کی حفاظت کے لیے مختلف اقدام پر غور کیا جا رہا ہے

صوبائی وزیر تعلیم

انہوں نے پشتون اساتذہ کی بلوچ علاقوں میں تعیناتی کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پشتون اساتذہ نے کو ئی گناہ نہیں کیاہے کہ وہ بلوچ علاقوں میں کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ پشتون علاقوں میں خالی اسامیوں پر صرف پشتون اساتذہ کو نئے روزگار کے مواقع دینے چاہیں۔

اس سلسلے میں صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمدخان نے کہا کہ خضدار ریذیڈنشل کالج کے وائس پرنسپل اس کے علاوہ قلات اور کوئٹہ میں پروفیسروں کی ہلاکتوں کے بعد خضدار ریذیڈنشل کالج کے چودہ اساتذہ کا عارضی طور پر کوئٹہ تبادلہ کردیاگیا ہے اور باقی اساتذہ کی حفاظت کے لیے مختلف اقدام پر غور کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کی کوشش ہے کہ بلوچ علاقوں میں خالی ہونے والے پوسٹوں پر وہاں کے مقامی لوگوں کوتعینات کیا جائے۔

بلوچ علاقوں میں پشتون اساتذہ کے تعیناتی کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ تبادلوں کا سلسلہ توہر وقت چلتا رہتا ہے اور بلوچ علاقے میں بھی صرف چند اضلاع ایسے ہیں جہاں غیر بلوچ اساتذہ خوف کی وجہ سے نہیں پڑھا سکتے ہیں اور باقی علاقوں میں اب بھی آباد کار اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔

شکریہ بی بی سی