Author Topic: نظریہ پاكستان كے عناصر  (Read 1124 times)

Offline Abdullah gul

  • Teme-03
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 3411
  • My Points +3/-0
  • Gender: Male
نظریہ پاكستان كے عناصر
« on: August 28, 2009, 05:13:25 PM »

نظریہ پاكستان كے عناصر

نظریہ پاكستان اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ہے۔ عقائد، عبادات، قانون كی حكمرانی، اخوت و مساوات اور عدل و انصاف نظریہ پاكستان كے عناصر ہیں۔ ان عناصر كی تفصیل ذیل میں پیش ہے۔

1۔ عقائد:

عقائد میں توحید، رسالت، آخرت، ملائكہ اور الہامی كتب پر ایمان لانا شامل ہے۔ ان كے مجموعے كو ایمان كہتے ہیں۔ توحید سے مراد یہ ہے كہ اللہ تعالیٰ ساری كائنات كا خالق و مالك ہے۔ اس كا كوئی شریك نہیں اور نہ ہی كوئی چیز اس كے علم سے باہر ہے۔ ان اللہ علی كل شئی قدیر ﴿بے شك اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے﴾ یعنی كوئی شے اس كی قدرت سے باہر نہیں، انسان كی حیثیت اللہ تعالیٰ كے نائب كی ہے لہٰذا مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ كے احكامات ماننا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ كے قادر مطلق ہونے اور انسان كے نائب ہونے كے عقائد سے خود بخود واضح ہو جاتا ہے كہ انسان اپنی طاقت كی حد تك عمل پر قادر ہے لیكن اصل قدرت اللہ كے ہاتھ میں ہے۔ انسان اپنی طاقت كے مطابق عمل كرے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دے۔

عقیدہٕ رسالت كا مطلب رسولوں پر ایمان لانا ہے۔ دائرہ اسلام میں آنے كے لیے لازم ہے كہ رسالت كو دل و جان سے تسلیم كیا جائے اور كسی اعتبار سے بھی اس میں شك و شبہ نہ كیا جائے۔ قرآن اور اسوہٕ رسول صلی اللہ علیہ وسلم كو سرچشمہ ہدایت ماننا عقیدہ رسالت كا لازمی تقاضا ہے۔

2۔ عبادات:

توحید و رسالت اسلام كا پہلا ركن ہے۔ دوسرا ركن نماز ہے جس كو مقررہ اوقات كے مطابق ادا كرنا فرض ہے۔د راصل اقامت صلوٰۃ، اقامت دین كا وہ نمونہ ہے جس كا ہر روز مظاہرہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ كی اطاعت كا ایسا ہی نظام پورے معاشرے میں قائم ہونا چاہیے۔ اسلام كا تیسرا ركن روزہ ہے۔ تمام عبادات كی طرح روزہ بھی فرض كا بہترین اظہار ہے۔ چوتھا ركن زكوٰۃ ہے۔ زكوٰۃ مالی عبادت ہے اور اسلام كے معاشی نظام كی پختگی كا ذریعہ ہے۔ زكوٰۃ كے نظام كی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں اكٹھی ہونے كی بجائے گردش میں رہتی ہے اور معاشرے كے غریب طبقے تك بھی پہنچ جاتی ہے۔

حج اسلام كا پانچواں ركن ہے جو صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے۔ حج كے موقع پر اللھم لبیك كی پكار مسلمانوں كے اتحاد اور بھائی چارے كی ایسی مثال ہے جو دنیا میں كہیں نظر نہیں آتی۔

اسلام میں لفظ جہاد كو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دینی اصطلاح میں جہاد سے مراد حق كی سربلندی كی خاطر اپنے مال اور جان كی قربانی ہے۔ مندرجہ بالا تعریف سے ہم كہہ سكتے ہیں كہ جہاد سے مراد ایثار اور قربانی ہے جو كہ اسلام كی حفاظت اور اشاعت كے لیے دی جاتی ہے۔ جہاد كی بہت سی قسمیں ہیں جن میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس شامل ہیں۔ سب سے افضل جہاد جان كی قربانی ہے جس كا انعام یہ ہے كہ شہید مر كر بھی زندہ رہتا ہے۔ جہاں تك اسلامی عبادات اور جہاد كا تعلق ہے، كہا جا سكتا ہے كہ تمام عبادات جہاد كی تربیت، تیاری اور جذبہ شہادت كی نشوونما كا ذریعہ ہیں۔

3۔ قانون كی حكمرانی:

قانون كی حكمرانی اسلام كے نظام كی امتیازی خصوصیت ہے۔ اس كی بنیاد اس تصور پر ہے كہ قانون كا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن اور وحی پر مبنی اسوہٕ رسول   قانون كی بنیاد ہے۔ چھوٹے بڑے حتیٰ كہ حكام بھی اس قانون كے سامنے برابر ہیں۔ یوں كہا جا سكتا ہے كہ اسلام كے نظام میں جمہوریت كی روح جاری و ساری ہے۔ حكام كو مشاورت كے ذریعے فیصلوں كا پابند كر كے جمہوریت كی مہر لگا دی گئی ہے، شرط یہ ہے كہ تمام فیصلے قرآن و سنت كی روشنی میں ہوں۔

4۔ اخوت و مساوات:

اسلامی معاشرہ میں اخوت و مساوات كو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مدینہ منورہ میں جب اسلامی حكومت بنی تو اس میں اخوت اور مساوات كی مثال دیكھنے كے قابل تھی۔ آج بھی اسلامی معاشرہ اسی اخوت و بھائی چارے اور مساوات كا متقاضی ہے جو كہ مدینہ میں نظر آئی تھی۔ اسلام سے پہلے اس اصول كا فقدان تھا اور لوگ ایك دوسرے كی جان كے دشمن تھے لیكن مدینہ كی ریاست كے وجود سے حضور اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق العباد پر عمل كرتے ہوئے یتیموں، بیواوٕں اور ناداروں سے مشفقانہ رویہ كی تلقین كی۔ آپ   نے ایك ضابطہ حیات لوگوں كو دے دیا تاكہ لوگ آپس میں محبت سے رہ سكیں اور معاشرے میں بھائی چارے اور مساوات كی فضا قائم ہو۔ آپ   نے زكوٰۃ اور خیرات كے نظام كو واضح كیا اور سود كو حرام قرار دیا كیونكہ اسلام میں دوسروں كے استحصال كی كوئی گنجائش نہیں۔

اخوت اس بات كا درس دیتی ہے كہ آپس میں برادرانہ تعلقات استوار ہونے چاہئیں تاكہ كسی كے حقوق سلب نہ ہو سكیں اور نہ ہی كوئی كمزور پر ظلم كرے۔ حضور اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا ارشاد ہے كہ مسلمان، مسلمان كا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہ كرے۔ آپ   نے كینہ اور حسد سے باز رہنے كا درس دیا۔ لہٰذا مسلمانوں كو چاہیے كہ وہ اتفاق سے رہیں اور ایك دوسرے كی مدد كریں۔

اسلامی معاشرہ میں جہاں اخوت اور بھائی چارے كو مقام حاصل ہے وہاں مساوات پر بھی زور دیا گیا ہے كیونكہ اسلام میں اونچ نیچ كا كوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام نے ایسے معاشرے كی بنیاد ركھی ہے جس میں غریب اور امیر سب ایك جیسے ہیں، كسی كو كسی پر برتری حاصل نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت كو خطبہ حجتہ الوداع میں یوں بیان فرمایا ہے:

٫٫ اے لوگو  تم سب كا پروردگار ایك ہے اور تم سب آدم   كی اولاد ہو۔ پس كسی عربی كو عجمی پر، عجمی كو عربی پر، كسی گورے كا كالے پر اور كالے كو گورے پر كوئی فوقیت حاصل نہیں۔٬٬

اسلام تو نام ہی مساوات كا ہے۔ اللہ تعالیٰ كے نزدیك كوئی شخص برتر نہیں ہے۔ اگر كوئی بڑا ہے تو اچھے اعمال كی بنا پر بڑا ہو سكتا ہے۔ آپ دیكھ لیں كہ مسجد میں كوئی شخص افضل نہیں ہے۔ سب ایك امام كے پیچھے كھڑے ہو كر نماز ادا كرتے ہیں۔ اللہ كے حضور كسی كو برتری حاصل نہیں۔

5۔ عدل و انصاف :

عدل و انصاف كے بغیر كوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں كر سكتا لہٰذا عدل و انصاف كا تقاضا ہے كہ معاشرہ میں ہر كسی كو اس كا حق ملے۔ جہاں انصاف پر مبنی معاشرہ ہو گا وہاں معاشرے كی دوسری خرابیاں خود بخود ٹھیك ہو جائیں گی كیونكہ اس طرح كوئی كسی كا حق غصب نہیں كر سكے گا۔ سزا كے خوف سے كوئی بے ایمانی یا نا انصافی كا مرتكب نہ ہو گا۔ طلوع اسلام سے پہلے اس قسم كی بے ایمانی اور طاقتور كو سزا نہ دینا اور كمزور كو سزا دینا عام تھا لیكن اسلام كے بعد عدل و انصاف كا بول بالا ہوا۔ معاشرہ میں عدل كی فضا چھا گئی اور مسلمان معاشرے میں انصاف ایك اہم ضرورت بن گیا۔

عدل و انصاف كی زندگی كے ہر شعبہ میں ضرورت ہے لیكن عدل و انصاف كے نفاذ كو ممكن بنانا عدالتی نظام كی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد كے لیے عدالتوں كا آزاد ہونا نہایت ضروری ہے۔ عدلیہ كے ججوں پر كسی قسم كا سیاسی دباوٕ نہیں ہونا چاہیے تاكہ قانون كا اطلاق سب پر یكساں ہو۔ كوئی امیر ہو یا غریب سزا سب كے لیے جرم كے مطابق ہونی چاہیے۔

حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے كہ جو قوم عدل و انصاف كو ترك كر دیتی ہے تباہی اور بربادی اس كا مقدر بن جاتی ہے۔ حضور اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل و انصاف كی بہت سی مثالیں چھوڑی ہیں جو كہ معاشرے كے لیے مشعل راہ ہیں۔ ایك دفعہ قبیلہ بنو مخزوم كی فاطمہ نامی خاتون كی چوری سے متعلق سزا كی معافی كی سفارش سن كر آپ   نے ارشاد فرمایا:

٫٫ تم سے پہلے قومیں اس وجہ سے برباد ہوئیں كہ وہ چھوٹوں كو سزا دیتے اور بڑوں كو معاف كر دیتے۔ خدا كی قسم اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری كرتی تو میں اس كا بھی ہاتھ كاٹ دیتا۔٬٬

عدل و انصاف كی اہمیت سے انكار نہیں كیا جا سكتا كیونكہ كسی بھی معاشرہ میں قانون كی بالادستی سے معاشرہ دن دگنی رات چوگنی ترقی كرتا ہے۔