Author Topic: جی ایچ کیو حملے سے امریکہ میں ’پاکستان فرسٹ‘ کی سوچ کو تقویت ملے گی  (Read 1602 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
جی ایچ کیو حملے سے امریکہ میں ’پاکستان فرسٹ‘ کی سوچ کو تقویت ملے گی

پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر ہونے والا حملہ بہت ہی غیر معمولی اور سنگین حملہ ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو اس سے پہلے دیگر فوجی تنصیبات اور آئی ایس آئی جیسے اداروں کو تو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن فوج کے صدر دفتر کو جو اس کا دل و دماغ ہے اور پالیسی سازی کا مرکز ہے پہلی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اسی دوران یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جی ایچ کیو پر اس حملے سے امریکہ میں اس سوچ کو تقویت ملے گی کہ افغانستان میں فوج یا فوجی کارروائی میں اضافے سے پہلے پاکستان سے نمٹا جائے۔

ان خیالات کا اظہار اردو سروس کے ایڈیٹر عامر احمد خان اور بی بی سی پاکستان کے چیف رپورٹر ہارون رشید نے کیا۔

ہارون رشید کے مطابق حملے کے طریقۂ کار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حملے کی خاصی منصوبہ بندی کی گئی تھی کیونکہ حملہ آور فوجی وردی پہنے ہوئے تھے اورگاڑی پر فوجی نمبر پلیٹ بھی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ دراصل طالبان کی طرف سے حکومت کے ان ارادوں کا رد عمل ہے جن کے تحت سوات کے بعد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ آپریشن شاید اس ماہ کے وسط میں شروع ہونا ہے۔

جی ایچ کیو پر حملے کے ذریعے شاید طالبان پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر جنگ وزیرستان میں شروع کی گئی تو اسے فوج کے دل اور مرکز تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

    " پاکستان میں اس کا براہ راست اثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ جو ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں کر رہا ہے ان کا دائرہ کار وسیع ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان حکومت او فوجی قیادت کے لیے انتہائئ پریشان کن صورتحال ہے"

بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ اس طرح کا خودکش حملہ نہیں تھا جس کا بنیادی مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے بلکہ یہ حملہ آور کسی بڑی مچھلی کی تلاش میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس حملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے جنرل پرویز مشرف پر ان کے دور صدارت میں ہونے والے حملوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا جن میں ملزمان پکڑے گئے اور ان پر مقدمے چلے۔

ان مقدمات کے دوران ایسے لوگوں کے نام سامنے آئے جو فوج کے کمانڈوز کے تربیتی مراکز میں امامت کروایا کرتے تھے۔ لہذا اس طرح کا حملہ جب بھی کسی فوجی مرکز پر ہوا ہے تو اطلاعات یہی ملی ہیں کہ ان کی فوج کے اندر رسائی ہے۔ ان حملہ آوروں کی یا تو اندر سے مدد ہو رہی ہوتی یا انہیں وہاں سے معلومات ملتی ہیں۔

جی ایچ کیو پر حملے میں ایک کرنل اور ایک بریگیڈیئر ہلاک ہوئے ہیں اور یہ لوگ چیک پوسٹوں پر ڈیوٹی نہیں دیتے۔

ہارون رشید نے کہا کہ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملے کی ذمہ داری فوراً قبول کر لی لیکن ایک روز قبل پشاور میں بس پر ہونے والے حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو ہفتے قبل پشاور میں صدر کے علاقے میں ایک حملہ ہوا تھا جس کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن اسی روز بنوں میں پولیس چوکی پر ہونے والے حملے کی طالبان نے فوراً ذمہ داری قبول کر لی تھی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شدت پسند عوامی حمایت کے لیے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے کتراتے ہیں جن میں عام شہریوں کی بھاری تعداد میں ہلاکت ہوتی ہے۔

جی ایچ کیو پر حملے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں فوج کی طرف سے اور ایک دو ٹی وی چینلوں پر بتایا گیا ہے کہ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جبکہ اس سے پہلے طالبان براہ راست میڈیا سے بات کرتے تھے۔

    "صدر مشرف پر حملوں کے مقدمات کے دوران ایسے ایسے لوگوں کے نام آئے جو فوج کے کمانڈوز کے تربیتی مراکز میں امامت کروایا کرتے تھے۔ لہذا اس طرح کا حملہ جب بھی کسی فوجی مرکز پر ہوا ہے تو اطلاعات یہی ملی ہیں کہ ان کی فوج کے اندر رسائی ہے۔ "

عامر احمد خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس حوالے سے یہ بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ دنیا میں جب بھی کسی فوجی مرکز پر حملہ ہوتا ہے تو کم سے کم معلومات لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اسی طرح جی ایچ کیو پر ہونے والے اس حملے کے بارے میں معلومات بھی انتہائی محدود ہیں۔

ہارون رشید نے کہا کہ چند روز میں تواتر سے ہونے والے بڑے حملوں کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ جب سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کا مسئلہ شروع ہوا ہے ایک تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

جب بھی شدت پسندوں پر دباؤ بڑھا انہوں نے اس کا جواب شہری علاقوں میں دیا۔ کچھ عرصے کے لیے شدت پسندی کے واقعات بڑھتے ہیں اور ایک حد تک جانے کے بعد ان میں تعطل آ جاتا ہے۔

اس وقت بھی شدت پسندوں اور فوج کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور طالبان کی نئی قیادت بھی آئی ہے اور لگتا ہے کہ شدت پسندی کے واقعات ایک بار پھر عروج پر جائیں گے۔

عامر احمد خان نے کہا کہ اسی دوران یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جی ایچ کیو پر اس حملے سے امریکہ میں اس سوچ کو تقویت ملے گی کہ افغانستان میں فوج یا فوجی کارروائی میں اضافے سے پہلے پاکستان سے نمٹا جائے۔ پاکستان میں اس کا براہ راست اثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ جو ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں کر رہا ہے ان کا دائرہ کار وسیع ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان حکومت اور فوجی قیادت کے لیے انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔

شکریہ بی بی سی