Author Topic: دو قومی نظریے كا ارتقا  (Read 1939 times)

Offline Abdullah gul

  • Teme-03
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 3411
  • My Points +3/-0
  • Gender: Male
دو قومی نظریے كا ارتقا
« on: August 29, 2009, 03:26:23 PM »
دو قومی نظریے كا ارتقا
برصغیر كے تاریخی تناظر میں دو قومی نظریے سے مراد یہ ہے كہ وطن كے اشتراك كے باوجود برصغیر كے مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ یہی تصور نظریہ پاكستان كی اساس ہے۔

قائداعظم  نے فرمایا تھا كہ دو قومی نظریے كی بنیاد اسی روز پڑ گئی تھی جب پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ گویا برصغیر میں دو قومی نظریے كی ابتدائ تو مسلمانوں كی آمد كے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ پھر مختلف مواقع پر اس نظریے كے اظہار، ارتقا اور استحكام كی صورتیں پیدا ہوتی گئیں۔

دو قومی نظریے كو علامہ اقبال  كے خطبہ الہ آباد سے منسوب كیا جاتا ہے حالانكہ یہ خطبہ دو قومی نظریے كا آغاز نہیں بلكہ ارتقائ كا نقطہ ہے۔ اس سے بہت پہلے ایك انگریز مفكر جان برائٹ نے 24 جون 1858ئ كو مسلمانوں كی الگ ریاست كا تصور پیش كیا۔

1867ئ میں سرسید احمد خاں نے برملا كہہ دیا تھا كہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور ایك دوسرے میں جذب نہیں ہو سكتیں۔

1879ئ میں مولانا جمال الدین افغانی ، 1890ئ میں مولانا عبدالحلیم شرر اور 1913ئ میں ولایت علی بمبوق نے دو قومی نظریے كا تصور پیش كیا۔

1928ئ میں مولانا مرتضیٰ احمد میكش اور مولانا اشرف علی تھانوی  نے مسلمانوں كی الگ ریاست كے قیام كی بات كی۔ گویا 1930ئ سے قبل دو قومی نظریہ ارتقا كے تمام مراحل طے كر چكا تھا۔

دو قومی نظریہ كے ارتقا كے بعد ہم دیكھتے ہیں كہ كس طرح دو قومی نظریہ سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں نے كوششیں جاری ركھیں۔ اس میں مسلمان لیڈروں كے علاوہ علمائ كرام نے بھی خاص طور پر حصہ لیا۔