Author Topic: کرم ایجنسی میں فسادات کیوں؟ عبدالحئی کاکڑ  (Read 2330 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
کرم ایجنسی میں فسادات کیوں؟ عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور
    
طالبانائزیشن کےظہورنے کرم ایجسنی میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کو ایک نئی جہت دی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے کُرم ایجنسی میں شیعہ سُنی فسادات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے مگر حکومت اس سے روکنے میں بظاہر نا کام نظر آرہی ہے۔

"حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کے مدمقابل شیعہ مہدی ملیشاء ہے جن کے تربیت یافتہ جنگجؤوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سات سو ہے جن میں امامیہ سٹو ڈنٹس آرگنائزیشن کے تین سو نوجوان بھی شامل ہیں۔اس گروپ کی سربراہی کالعدم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے مقامی رہنماء عا بد حسین الحسینی کر رہے ہیں۔

تاہم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ان کی مسلح تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کارکن کرم ایجنسی کے فسادات میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک فلاحی اور سیاسی تنظیم ہے جو محض سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔"

باوثوق سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کُرم ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ اعظم خان گزشتہ دس روز سے فسادات روکنے کےلیے مرکزی حکومت سے گن شپ ہیلی کاپٹر مہیا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم حکام بالا کا کہنا ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں طالبان کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے گن شپ ہیلی کاپٹر پولٹیکل انتظامیہ کو فراہم نہیں کیے جا سکتے۔

سات اگست کو ایک ٹریکٹر کے جلائے جانے کے بعد شیعہ سنی فسادات میں اب تک سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پچھتر افراد ہلاک اور دو سو ایک زخمی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بقول ان کے لوئر کُرم میں سُنیوں کے گاؤں کو جلائے جانے کے دوران جن افراد کو ہلاک کیاگیا ہے ان کی لاشیں اب بھی جگہ جگہ پڑی ہیں۔

تازہ جھڑپیں سات اگست کو لوئر کُرم میں اس وقت شروع ہوئیں جب حکومتی ذرائع کے مطابق صدر مقام پاڑہ چنار سے تقریباً چار ہزار شیعوں پر مشتمل ایک لشکر نے سُنیوں کے گھروں پر حملہ کر کے ان میں موجود سامان کو لوٹ کر کئی گاؤں کو نذرِ آتش کردیا۔

اس لشکر نے منڈا، اسماعیل، حیدر خان، گالہ، مندری اور مدوخیل کلی اورمخیزئی کے چار چھوٹے چھوٹے دیہات کو آگ لگا دی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان تمام گاؤں میں تقریباً دو سو مکانات کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس بار ماضی کے برعکس ماضی کے برعکس کرم ایجنسی میں شیعوں کو لڑائی میں سنیوں پر سبقت حاصل رہی ہے۔
 
ماضی کے برعکس شیعوں کو لڑائی میں سنیوں پر سبقت حاصل رہی ہے۔ تاہم گزشتہ تین دنوں سے لوئر کُرم کے سُنیوں کو سینٹرل کُرم کے مسلح قبائل کی مدد حاصل ہوجانے کے بعد انہوں نے دفاع کی بجائے جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے۔

اس دوران سُنیوں نے تین شیعہ دیہات چار دیوار، جلمئی اور سیدان پر قبضہ کرکے سامان کولوٹنے کے بعد اس سے نذرِ آتش کردیا ہے۔

اگرچہ اس لڑائی میں دونوں طرف سے عام قبائل ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں لیکن جنگ میں شدت لانے اور اس سے مزید بھڑکانے میں شیعہ اور سُنی مسلک کےماننے والے نظریاتی اور حربی لحاظ سے تربیت یافتہ دو مخالف گروپوں کا ہمیشہ سے بہت بڑا کردار رہا ہے۔

ان دو گروپوں میں سُنی طالبان جنگجؤ اور شیعہ مہدی ملیشاء شامل ہے۔

کُرم ایجنسی میں اگرچہ سنی اور شیعہ فسادات مغل بادشاہ بابر کے دور ، انگریزوں اور پاکستان کے قیام کے بعد وقتا فوقتاً ہوتے آ رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبانائزیشن کے ظہور نے فرقہ ورانہ فسادات کو ایک نئی جہت دی ہے۔

حالیہ فسادات نو نومبر دوہزار سات سے اس وقت شروع ہوگئے جب علاقے میں نو وارد طالبان نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک سپاہی امجد حسین کو ضلع ہنگو کے دوآبہ کے علاقے سے مبینہ طور پر اغواء کرکے ان کا سرقلم کردیا۔

مقتول کی لاش کے پاس جو خط ملا تھا اس پرطالبان کی جانب سے لکھا گیا تھا کہ انہوں نے سپاہی کو جاسوس سمجھ کر قتل کردیا ہے۔ اس انداز سے قتل کرنے کے عمل نے کُرم ایجنسی میں موجود شیعہ آبادی کو مشتعل کردیا اور انہوں نے سُنیوں پر حملہ کر دیا۔

اگلے دن لوئر کُرم میں سنیوں نے پندرہ شیعوں کو ہلاک کردیا اور یوں فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔اس دوران تقریباً دو سو سُنی خاندانوں نے شیعہ اکثریتی صدر مقام پاڑہ چنار سے نقل مکانی کی جبکہ جواب میں سُنیوں نے پاڑہ چنار جانے والی واحد اہم شاہراہ کو بند کردیا۔

اس راستے کے بند ہونے سے شیعوں کے آمد ورفت کے تمام راستے بند ہوگئے، بازار میں خوردنی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہوگئی۔ ہسپتال میں ادویات ختم ہوگئیں اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے افغان حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہسپتال کو کئی ملین روپے کی ادویات فراہم کیں۔

اس کے علاوہ پاڑہ چنار کے لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے پشاور آتے جبکہ تورخم بارڈر کے ذریعے افغانستا ن سے گزرتے ہوئے واپس پاڑہ چنار پہنچتے تاہم اس دوران طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف اتحادی افواج نے پاڑہ چنار جانے والے افراد کو مشکوک سمجھ کر ان پرحملہ کردیا جس میں بعض افراد ہلاک بھی ہوئے۔

شیعہ اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والا اعتدال پسند طبقہ خود کو طالبان اور مہدی ملیشاء کی ہاتھوں میں یرغمال پاتے ہیں۔ ان میں درجنوں افراد نے بات چیت کے دوران بتایا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔

اس طبقے کا خیال ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ نظر آرہا ہے۔ تاہم ان کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس وقت سرکاری اعداد شمار کے مطابق ایک ہزار کے قریب طالبان جنگجو علاقے میں جاری فسادات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف ایک سو بیس کے قریب جنگجؤوں کا تعلق کُرم ایجنسی سے بتایا جاتا ہے جبکہ باقی تمام کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے جو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے دست راست حکیم اللہ کے زیر کمان لڑ رہے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کے مدمقابل شیعہ مہدی ملیشاء ہے جن کے تربیت یافتہ جنگجؤوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سات سو ہے جن میں امامیہ سٹو ڈنٹس آرگنائزیشن کے تین سو نوجوان بھی شامل ہیں۔اس گروپ کی سربراہی کالعدم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے مقامی رہنماء عا بد حسین الحسینی کر رہے ہیں۔

تاہم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ان کی مسلح تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کارکن کرم ایجنسی کے فسادات میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک فلاحی اور سیاسی تنظیم ہے جو محض سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھمبیر صورتحال میں پولٹیکل انتظامیہ کیا کر رہی ہے۔ پولٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کےلیے مؤثر طریقہ فوج کی اضافی نفری کی تعیناتی اور فریقن کے مورچوں پرگن شپ ہیلی کاپٹر کی فائرنگ ہے تاہم ان کے بقول بار بار کے رابطے کے باوجود مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں جاری آپریشن کی وجہ سے اضافی گن شپ ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں ہیں۔

اس وقت حکام کے مطابق شیعہ اکثریتی علاقے پاڑہ چنار میں کُرم ملیشاء کے تین ہزار جبکہ فوج کے آٹھ سو جوان موجود ہیں۔ ان کے بقول سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں میں تقریباً ساٹھ فیصد سنی اور چالیس فیصد شیعہ ہیں۔ان کے مطابق حکومت اس وقت اس خوف کا شکار ہے کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد شیعہ اکثریتی علاقے کے لوگ اس سے فرقہ ورانہ آپریشن سمجھیں گے اور خود سکیورٹی فورسز کے اندر بھی ایک تقسیم آسکتی ہے۔
   
مغل بادشاہ کے دور سے
  کُرم ایجنسی میں سنی اور شیعہ فسادات مغل بادشاہ بابر کے دور ، انگریزوں اور پاکستان کے قیام کے بعد وقتا فوقتاً ہوتے آ رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبانائزیشن ظہورنے فرقہ ورانہ فسادات کو ایک نئی جہت دی ہے۔
 
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولٹیکل ایجنٹ اور کُرم ملیشاء کے کمانڈنٹ خود کو پاڑہ چنار میں محصور تصور کرتے ہیں اور کارروائی کے احکامات دینے کے بعد ان کے لیے مزید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔

تاہم ان تمام حکومتی وضاحتوں کے باوجود حالات دن بدن خرابی کی طرف جارہے ہیں اور مبصرین کے بقول حکومت کو خاموشی توڑ کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔دو روز قبل پشاور میں مشیرِ داخلہ رحمان ملک نےجنگ بندی کے لیے فریقین کو بہتر گھنٹے کا وقت دیا تھا جس پر کافی تنقید کی گئی کہ ان کے اس بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت فریقین کو تین دنوں تک مزید لڑنے کی اجازت دے رہی ہے۔

مشیرِ داخلہ کے اعلان کے بعد دو دنوں میں چالیس کے قریب افراد ہلاک اور پچاس گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے اور مقامی لوگ سوال کرتے ہیں کہ مشیرِ داخلہ کی جانب سے حالات کی سنگینی کی حقیقت تسلیم کیے جانے کے بعد ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے۔
شکریہ بی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور