Author Topic: Photograph Shortage of Classrooms & Furniture Primary School in Punjab  (Read 2803 times)

Offline iram

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 3849
  • My Points +16/-3
  • Gender: Female
Photograph Shortage of Classrooms & Furniture Primary School in Punjab



CHINIOT: September 28 Students of Govt. Primary School Ahmadpura busy in their studies in an open area due to shortage of classrooms and furniture.



Students of Govt. Primary School Ahmadpura busy in their studies in an open area due to shortage of classrooms and furniture


Photo by Mushtaq Ahmad Nasir/app

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
Re: Photograph Shortage of Classrooms & Furniture Primary School in Punjab
« Reply #1 on: September 30, 2009, 09:14:34 PM »

’پڑھا لکھا پنجاب، بھوکا ننگا استاد‘

پنجاب لیکچررز ایسوسی ایشن کے زیر انتظام پنجاب بھر کے مختلف کالجز سے آئے سینکڑوں کی تعداد میں اساتذہ نے لاہور میں گھنٹوں پر محیط احتجاجی مظاہرہ کیا اور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب قوت خرید کی کمی کا شکار جہاں ہر طبقہ ہو رہا ہے وہاں اساتذہ بھی اس کا شکار ہیں اور سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

پنجاب کے کالجز کے ان اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ ان کی یونیورسٹی کے اساتذہ کے اوقات کار کے مطابق اگلے گریڈز میں ترقی دی جائے۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور اساتذہ کی تقرریوں میں کانٹریکٹ کے نظام کو ختم کیا جائے اور غیر مستقل اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔

ایم اے او کالج لاہور سے پنجاب بھر سے آئے سینکڑوں اساتذہ نے احتجاجی جلوس نکالا۔ اساتذہ مال روڈ لاہور سے جلوس کی شکل میں پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچے جہاں انہوں نے نعرے بازی کی اور کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ایک دلچسپ پلے کارڈ تھا ’پڑھا لکھا پنجاب، بھوکا ننگا استاد‘۔

مظاہرین چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر لیٹ گئے اور سینا کوبی کی اس دوران پتوکی سے آئے ایک لیکچرار محبوب علی احمد نے خود سوزی کرنے کی کوشش کی جنہیں ان کے ساتھیوں نے ناکام بنا دیا۔

محبوب علی کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے اس دور میں ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ان کے پانچ بچے ہیں اور کئی سالوں سے ان کی اگلے گریڈ میں ترقی نہیں ہوئی اور وہ اخراجات پورے نہیں کر سکتے اور شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ایسی حالت میں وہ خود سوزی نہ کریں تو کیا کریں؟

پنجاب لیکچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری پروفیسر عارف انجم کا کہنا ہے کہ تین سو اساتذہ ایسے تھے جو بغیر ترقی کے دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہزاروں اساتذہ ایسے ہیں جن کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ چکے ہیں۔

گورنمنٹ وومین ڈگری کالج وحدت روڈ کی ایک لیکچرر بیگم میمونہ نواز کا کہنا تھا کہ جب ان کی شادی ہوئی تھی تو وہ لیکچرر تھیں اور اپنے بیٹے کی شادی کے وقت بھی وہ لیکچرر ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ایک لیکچرر کی دوسرے گریڈ میں ترقی دس سے بارہ سال میں ہو جانی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ اب حد ہو چکی ہے اور ہم سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور واپس تب ہی جائیں گے جب ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔

تحصیل بھکر کے قصبے دریا خان سے کئی نوجوان لیکچرر مرد اور خواتین اس لیے احتجاج کے لیے آئے تھے کہ ان کی نوکری مستقل کر دی جائے۔ان میں سے ایک خاتون لیکچرر نادیہ تسنیم کا کہنا تھا کہ بھکر سے پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے تب وعدہ کیا تھا کہ غیر مستقل ملازمین کو مستقل کریں گے۔

نادہ تسنیم کے مطابق وہ انہیں اتنا لمبا سفر کر کے وزیراعلٰی ان کا وعدہ یاد کروانے آئی ہیں اور اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو ان کی تحریک بھی وکلاء تحریک کی شکل اختیار کر لے گی۔

یہ اساتذہ شدید گرمی میں کئی گھنٹے سڑک پر دھرنہ دیے بیٹھے رہے لیکن ارباب اختیار میں سے کوئی ان کی بات سننے نہ آیا اور کافی دیر بعد مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی نصیر بھٹہ وزیر اعلٰی پنجاب کا پیغام لے کر آئے کہ وہ لیکچررز ایسوسی ایشن کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور ان کے مطالبات پر غور ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے توچودہ مئی کو پنجاب اسمبلی کے سامنے اساتذہ بھوک ہڑتال کریں گے۔
شکریہ بی بی سی
http://www.bbc.co.uk/urdu/lg/pakistan/2009/05/090508_lecturer_protest_zee.shtml

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
پنجاب کتنا پڑھا لکھا ہے؟
« Reply #2 on: September 30, 2009, 09:17:46 PM »
Monday, 25 December, 2006, 09:54 GMT 14:54 PST
پنجاب کتنا پڑھا لکھا ہے؟

عدنان عادل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


پنجاب حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے کُل پینتیس اضلاع میں سے پچیس ضلعوں میں نصف یا اس سے زیادہ آبادی ناخواندہ ہے۔

پنجاب حکومت گزشتہ چار سال سے عالمی بینک کی تقریباً آٹھ ارب روپے سالانہ مالیت کی امداد سے تعلیمی شعبہ میں اصلاحات کا پروگرام چلا رہی ہے جسے پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ دیا گیا ہے۔

اس پروگرام کی مقامی میڈیا میں تشہیر پر حکومت ہر سال تیس کروڑ روپےخرچ کرتی ہے۔ تاہم تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے شہروں میں بھی آدھی سے زیادہ آبادی ناخواندہ ہے۔

راولپنڈی ضلع میں ستر فیصد سے زیادہ آبادی خواندہ ہے جبکہ لاہور شرح خواندگی کےاعتبار سے دوسرے درجے پر ہے جہاں تقریباً پینسٹھ فیصد لوگ خواندہ بتائے گئے ہیں۔

صوبے کے پینتیس ضلعوں میں راجن پور اور مظفر گڑھ خواندہ آبادی کے اعتبار سے سب سے نیچے ہیں جن کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ یا اس سے بھی کم خواندہ ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق راجن پور میں شرح خواندگی تقریباً اکیس فیصد جبکہ مظفرگڑھ میں اٹھائیس فیصد سے زیادہ ہے۔

شمالی اور وسطی پنجاب کے دس اضلاع کی نصف سے زیادہ آبادی خواندہ ہے۔ ان میں راولپنڈی، لاہور، جہلم، گجرات، سیالکوٹ، چکوال، گوجرانوالہ، نارووال، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ شامل ہیں۔

ملتان کے سوا جنوبی پنجاب کا کوئی ضلع ایسا نہیں جہاں شرح خواندگی چالیس فیصد سے زیادہ ہو۔ ملتان میں خواندہ آبادی کی شرح تینتالیس فیصد سے زیادہ
بتائی گئی ہے۔

پنجاب کے پندرہ ضلعے ایسے ہیں جن کی ساٹھ فیصد آبادی ناخواندہ ہے اور یہ تمام علاقے جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔

پنجاب کے وہ تین اضلاع۔ راولپنڈی، جہلم اور چکوال۔ جہاں سے فوج میں سب سے زیادہ بھرتی کی جاتی ہے ان میں شرح خواندگی پچاس سے ستر فیصد تک ہے۔
   
جہلم، چکوال، راولپنڈی
 پنجاب کے تین اضلاع راولپنڈی، جہلم اور چکوال میں شرح خواندگی پچاس سے ستر فیصد تک ہے۔
 

شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کے وہ علاقے (جیسے گوجرانوالہ، سیالکوٹ وغیرہ) جن کی معیشت میں صنعتی سرگرمی کا حصہ نسبتاً زیادہ ہے وہاں شرح خواندگی زرعی معیشت والے علاقوں (جیسے اوکاڑہ، خانیوال وغیرہ) کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔

پنجاب حکومت کے مختلف ضلعوں میں شرح خواندگی ترتیب نزولی میں درج ذیل ہے۔

راولپنڈی (ستر اعشاریہ پچاس فیصد)۔ لاہور (چونسٹھ اعشاریہ ستر فیصد)۔ جہلم (تریسٹھ اعشاریہ نوے فیصد)۔ گجرات (باسٹھ اعشاریہ بیس فیصد)۔ سیالکوٹ (اٹھاون اعشاریہ نوے فیصد)۔ چکوال (چھپن اعشاریہ ستر فیصد)۔ گوجرانوالہ (چھپن اعشاریہ ساٹھ فیصد)۔ نارووال (باون اعشاریہ ستر فیصد)۔ فیصل آباد (اکیاون اعشاریہ نوے فیصد)۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ (پچاس اعشاریہ پچاس فیصد)۔اٹک (اننچاس اعشاریہ تیس فیصد)۔ منڈی بہاؤالدین (سینتالیس اعشاریہ چالیس فیصد)۔ سرگودھا (چھیالیس اعشاریہ تیس فیصد)۔ ساہیوال (تینتالیس اعشاریہ نوے فیصد)۔ شیخو پورہ (تینتالیس اعشاریہ اسی فیصد)۔ ملتان (تینتالیس اعشاریہ چالیس فیصد)۔ میانوالی (بیالیس اعشاریہ اسی فیصد)۔ حافظ آباد (چالیس اعشاریہ ستر فیصد)۔ خوشاب (چالیس اعشاریہ پچاس فیصد)۔ خانیوال (انتالیس اعشاریہ نوے فیصد)۔ لیہ (اڑتیس اعشاریہ ستر فیصد)۔ اوکاڑہ (سینتیس اعشاریہ اسی فیصد)۔ جھنگ (سینتیس اعشاریہ دس فیصد)۔ وہاڑی (چھتیس اعشاریہ اسی فیصد)۔ قصور (چھتیس اعشاریہ بیس فیصد)۔ بہاولنگر (پینتیس اعشاریہ دس فیصد)۔ بہالپور (پینتیس فیصد)۔ پاکپتن (چونتیس اعشاریہ ستر فیصد)۔ بھکر (چونتیس اعشاریہ بیس فیصد)۔ رحیم یار خان (تینتیس اعشاریہ دس فیصد)۔ ڈیرہ غازی خان (تیس اعشاریہ ساٹھ فیصد)۔ لودھراں (انتیس اعشاریہ نوے فیصد)۔ مظفر گڑھ (اٹھائیس اعشاریہ پچاس فیصد) اور راجن پور (بیس اعشاریہ ستر فیصد)۔