Author Topic: U.A.Eدوبئی  (Read 2068 times)

Offline Haji Hasan

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 725
  • My Points +4/-1
  • Gender: Male
U.A.Eدوبئی
« on: December 09, 2007, 08:41:22 PM »
 U.A.E دوبئی

دوبئی كسی كا خواب ہے تو كسی كے خوابوں كی حسین تعبیر۔ متحدہ امارات كی سات

ریاستوں یعنی ابو ظہبی، دوبئی شارجہ ، راس الخیمہ، عجمان، اور فجیرہ پر مشتمل

٫٫وفاق٬٬ میں ابو ظہبی كے بعد دوبئی سب سے بڑی امارت ہے۔

خلیج عرب كے جنوب مشرقی ساحل پر آباد دوبئی كا كل رقبہ ٥٨٨٣ مربع كلومیٹر ہے۔ اپنے

بہترین محل وقوع اور قدرتی بندرگاہ ہونے كی وجہ سے گزشتہ چند برسوں كے دوران دوبئی

نہ صرف خلیجی ممالك میں بلكہ بین الاقوامی سطح پر ایك اہم تجارتی مركز كی حیثیت

سے ابھرا ہے۔

آج كے اس دوبئی میں آپ خواہ كسی بھی سمت سے داخل ہو جائیں پچیس سال قبل

والا صحرائی اور بے آب و گیاہ دوبئی ڈھونڈنا بہت مشكل ہو گا۔ كم و بیش ربع صدی بعد

یہاں آنے والا كوئی بھی شخص دوبئی كو نہیں پہچان سكتا كیونكہ اس عرصے میں دوبئی

ایك جدید اور شاندار شہر میں تبدیل ہو چكا ہے۔ خوب صورت عمارتیں صاف ستھری اور

كشادہ سڑكیں عالی شان شاپنگ پلازہ ، خوب صورت پل ، سڑكوں كے ساتھ ساتھ دو رویہ

اور طویل سبزہ زار سرسبز شاداب باغات دیدہ زیب ولاز اور پرشكوہ محلات دیكھ كر یہ

یقین كرنا مشكل ہے كہ ہم دوبئی ہی كو دیكھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے كہ جیسے جادوئی چراغ

كے ذریعے ریگستان میں ٫٫شہر زریں٬٬ كھڑا كر دیا گیا ہو۔

اپنے محل وقوع كے اعتبار سے دوبئی چوتھی صدی قبل مسیح میں بھی ایك اہم بندر گاہ

تھا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان اور سراندیپ ﴿موجودہ سری لنكا﴾ سے تجارت

كرنے والے مغربی تاجران اور تجارتی مال و اسباب سے لدے ہوئے ان كے دخانی جہاز

ہندوستان یا وہاں سے آتے ہوئے یہیں پر لنگر انداز ہوتے تھے۔

٣٣٨١ئ میں قبیلہ بنی یاس كی ایك شاخ ٫٫المكتوم٬٬ نے دوبئی كا نظم و نسق سنبھال

لیا۔ یہی خاندان آج بھی دوبئی پر حكمران ہے۔ اس زمانے میں میں دوبئی ایك چھوٹا سا

مقام تھا۔ جہاں صرف گلہ بانی اونٹوں كی پرورش كھجور كی كاشت اور ماہی گیری ہوا

كرتی تھی البتہ المكتوم خاندان كے بعد سے دوبئی ترقی كی راہ پر آگے بڑھنے لگا۔ كچھ ہی

عرصے بعد دوبئی كی سمندری حدود سے نكلنے والے آبدار موتیوں كے سبب یہ علاقہ جلد

ہی بیش قیمت موتیوں كی بڑی منڈی بن گیا۔

٨٥٩١ئ میں شیخ راشد بن سعید المكتوم نے تخت نشینی كے ساتھ ہی اس وقت كے

دستیاب وسالئل بروئے كار لاتے ہوئے دوبئی كی دیر پا ترقی كے لیے دور رس اور موثر منصوبہ

بندی شروع كر دی۔ ٠٦٩١ئ میں ٫٫كالے سونے٬٬ یعنی پٹرول كی دریافت نے دوبئی پر خوش

حالی كے نئے دروازے كھول دئیے۔ شیخ راشد نے پٹرول كی تمام آمدنی اپنی عوام كی خوش

حالی اور امارت دوبئی كی ترقی كے لیے وقف كر دی۔ اس كے بعد نہ صرف دوبئی بلكہ دیگر

ممالك كے لوگوں كے لیے بھی روزگار كے نت نئے مواقع پیدا ہوئے۔

ترقی كے ان ابتدائی ایما میں پاكستانی مزدور پیشہ افراد اور بھارت كے تاجروں كی كثیر

تعداد نے دوبئی میں كام كرنا شروع كیا اور یوں اس امارت كی ترقی میں بنیادی كردار ادا

كیا۔ شروع شروع میں برصغیر كے لوگوں نے ضروریات زندگی كپڑے اور خورد و نش كے سامان

كی چھوٹی چھوٹی دكانیںكھولیں جو وقت كے ساتھ وسعت اختیار كرتی گئیں اور آج

دوبئی كے بڑے كاروبار مقامات میں شامل ہیں۔ ان میں شیو ترام، جشن مل، رتی اور

ریوالی چند میں قابل ذكر نام ہیں۔ بھارتی تاجروں كو ایك اور سہولت یہ بھی حاصل تھی

كہ اس زمانے میں دوبئی میں بھارتی سكہ ہی چلتا تھا۔

دوبئی كی امارت كو سمندر نے دو حصوں میں تقسیم كر ركھا ہے۔ ایك حصہ ٫٫ڈیرا دوبئی٬٬

اور دوسرا ٫٫بر دوبئی٬٬ كہلاتا ہے۔ جسے برصغیر كے لوگ پار دوبئی كہتے ہیں۔ دونوں ہی

مقامات قابل ذكر مقامات اور نمایاں عمارات پر مشتمل ہیں۔ دونوں حصوں كو دو سمندر

پلوں المكتوم برج اور الگرہود برج اور الخلیج روڈ پر واقع ایك آبی سرنگ نے آپس میں ملا

ركھا ہے۔ زیادہ آمد و رفت انہی مذكورہ راستوں كے ذریعے ہوتی ہے۔ البتہ كشتیوں كے ذریعے

خاصی مزدور پیشہ لوگ پار دوبئی سے ڈیرہ دوبئی آتے جاتے ہیں۔ برصغیر كے لوگ كشتیوں

كے اس مقام كو ٫٫چونی والا ابرا٬٬ بھی كہتے ہیں۔ كیونكہ كشتیاں ٥٢ فلس فی سواری

كرایہ وصول كرتی ہیں اور ٥٢ فلس كاسكہ جسامت میں پاكستانی چونی كے برابر ہوتا ہے ۔

اس لیے زیادہ تر پاكستانی اسے چونی ہی كہت ہیں۔ ڈیراہ دوبئی كا شارجہ سے دس

كلومیٹر ہے جبكہ پار دوبئی كی ابو ظہبی سے مسافت ٨٦١ كلومیٹر بنتی ہے۔

دوبئی كا بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی ڈیرا دوبئی میں واقع ہے۔ اسی وجہ سے بیشتر بڑے

اور مصروف شاپنگ سینٹر ، الملاپلازہ ، القصیص شاپنگ سنٹر ، شیو ترام ، جشن مل، دی

سینٹر، احمرین شاپنگ سینٹر، المنال سینٹر، اور ابو بیل كے سینٹر چند بڑے اور مشہور نام

ہیں۔ یہاں پر ضروریا ت زندگی كی تقریبا تمام اشیائ دستیاب ہیں۔

گولڈ سوق ﴿سونا بازار﴾ میں ٠٠٧ دكانیں ہیں جن پر خالص ﴿٢٢ قیراط﴾ كے سونے كی ٹكیاں

اور دنیا كے ہر خطے میں پہنے جانے والے زیورات فروخت كئے جاتے ہیں۔ سونا بازار كے قریب ہی

پبلك لائبریری ہے۔ جہاں تقریباً ہر موضوع پر انگریزی اور عربی میں كتب موجود ہیں۔

 دوبئی كے تمام شاپنگ سنیٹرز اور دكانیں ائیركنڈیشنڈ ہیں۔ البتہ العزیز شاپنگ سینٹر

سب سے پرانا شاپنگ سینٹر ہے۔ جسے جدید ترین سہولیات اور برقی سیڑھیوں سے

آراستہ كیا گیا ہے۔ یہ بہت مصروف شاپنگ سینٹر ہے۔ جس میں ایك ہی چھت كے نیچے

مكمل خریداری كی جا سكتی ہے۔

ڈیرا دوبئی كا ناصر چوك یہاں كا شاندار ترین اور نفیس ترین علاقہ شمار كیا جا تا ہے۔ اس

علاقے میں شاندار ہوٹل اہم بینك اور كثیر تعداد ٹریول ایجنسیوں كے دفاتر ہیں۔ اس كے قریب

ہی كپڑے اور الیكٹرونكس كے سامان كا مركز بھی ہے۔ ان میں كپڑے كی دكانوں كے زیادہ تر

مالكان پاكستانی ہیں۔ یہاں كی ایك اور خوبی یہ ہے كہ اس علاقے میں مہنگا ترین سے لے

كر ارزاں ترین كپڑا اور ہر قسم كی برقی مصنوعات خریدی جا سكتی ہیں۔ ڈیرہ دوبئی كے

سب سے پرہجوم ٫٫گھنٹہ گھرچوك ﴿كلال ٹاور راوٕنڈ اباوٕٹ﴾ كے پاس ٫٫دناتا٬٬ كی عمارت ہے

جس میں دنیا كی تقریباً تما فضائی كمپنیوں كے دفاتر واقع ہیں۔

پار دوبئی میں بھی تجارتی مراكز پر وہی گہماگہمی رہتی ہے جو پوری امارت دوبئی كی

شناختی علامت ہے۔ یہاں كے بڑے كاروبار مراكز میں وافی شاپنگ مال ، كرامہ شاپنگ

سینٹر ، الدافیہ شاپنگ سینٹر، میگرو ڈیز شاپنگ سینٹر، مركز الجہیمرہ ، دی بیچ سینٹر

اور جمیرا پلازا كو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ كرامہ شاپنگ سینٹر ، مقامی آبادی كی ضروریات

پوری كرتا ہے۔ یہاں پر سوئی سے لے كر فٹ بال اور تمباكو سے لے كر كمپیوٹر تك ہر چیز

مناسب دام میں مل جاتی ہے۔

ٹریڈ سینٹر روڈ پر نو تعمیر شدہ ٫٫برجمان شاپنگ سینٹر٬٬ بھی پار دوبئی كے تجارتی

مراكز میں ایك خوب صورت اضافہ ہے۔ اس كی عمارت شیشے كی بنی ہوئی ہے۔ رات میں

جب یہ تجارتی مركز روشنی سے جگمگاتا ہے تو شیش محل كی زندہ تفسیر نظر آتا ہے۔

پار دوبئی میں كپڑے كی خریداری كا سب سے بڑا بازار ، شارعی الفہیدی پر واقع ہے۔ پلازہ

سینما كے عقب میں ٫٫اسٹور یا ہوٹل٬٬ كے قریب ہی سے كپڑے كی دكانیں شروع ہو جاتی

ہیں ۔ ریوالی اورتی جیسی بڑی دكانوں كے علاوہ كپڑے كی دیگر مصروف ترین دكانیں بھی

اسی علاقے كی زینت ہیں۔ یہاں كے دكاندار اور گاہك ، دونوں ہی زیادہ تر برصغیر پاك و ہند

سے تعلق ركھتے ہیں۔ اس لیے یہاں پر بھاوٕ تاوٕ كا منظر بھی عام طور پر دیكھنے میں آتا ہے

البتہ خریداروں كا زور ٫٫دوبئی ڈیوٹی فری شاپنگ مال٬٬ پر زیادہ ہوتا ہے۔

دوبئی كے محكمہ شہری ہوا بازی نے ٣٨٩١ئ میں یہ كمپلیكس قائم كیا تھا۔ یہاں ہر چیز

مناسب داموں میں مل جاتی ہے ۔ لیكن سونے كی قیمت گولڈ سوق كے مقابلے میں زیادہ

ہوتی ہے۔ اس ڈیوٹی فری شاپ پر پانچ سو درہم كا ایك ٹكٹ خرید كر ایك بالكل نئی اور

قیمتی كار كی قرعہ اندازی میں شامل ہوا جا سكتاہے۔

دوبئی انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر كی ٩٣ منزلہ خوب صورت عمارت بھی پار دوبئیمیں ہے۔ یہ

دوبئی میں میں اپنی نوعیت كی پہلی كثیر منزلہ عمارت ہے۔ جس میں مقامی اور بین

الاقوامی اداروں كے سینكڑوں دفاتر ہیں۔ اس كے علاوہ صنعتی نمائشوں كے لیے تین وسیع و

عریض ہال بھی ہیں جن میں ہر سال ٥٣ سے چالیس نمائشیں منعقد ہوتی ہیں اور ہر

نمائش كو دس ہزار سے پچاس ہزار افراد دیكھتے ہیں۔

دوبئی كی ایك خاص بات یہاں كا ٫٫جبل علی فری زون٬٬ ہے جو پار دوبئی سے ٥٣ كلومیٹر

دور ہے۔ یہ ایك مكمل صنعتی علاقہ ہے۔ جہاں پر مقامی اور غیر ملكی صنعت كاروں كے لیے

سرمایہ كاری كے بہترین مواقع ہیں۔ امارت دوبئی كی صنعتی پالیسی كے تحت اس علاقے

میں سرمایہ كاری كرنے والوں كو بہت سی مراعات دی گئی ہیں۔ یہاں پر كپڑا ، ارتھ موونگ

كا سامان ، ائیركنڈیشنر مینو فیچكرنگ ٹی وی وڈیو مینو فیكچرنگ اور سیمٹ وغیرہ كے

كارخانے لگے ہوئے ہیں۔ جبل علی فری زون ٠٠١ مربع كلومیٹر كے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس كے

قریب ہی ٫٫جبل علی پورٹ٬٬ بھی ہے جس كی بدولت خام مال اور تیار شدہ مصنوعات كی

نقل و حمل بھی بہت آسان اور كم خرچ ہو گئی ہے ۔ یہ انسانی ہاتھوں كی تعمیر كردہ

سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔

دوبئی میں زیادہ تر لوگوں كی آمد كا مقصد خریداری ہوتا ہے۔ ان چھوٹے تاجروں سے لے كر

ارب پتی سرمایہ دار سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں كی رہائشی ضروریات پوری كرنے

كے لیے چھوٹے بڑے مہنگے اور كم خرچ ہر طرح كے ہوٹل بھی موجود ہیں۔ پار دوبئی میں ٹریڈ

سنٹر كے سات بلٹن ہوٹل، ہالی ڈے ان كراوٕن پلازہ ، شكاگو بیچ ہوٹل اور دوبئی میٹرو

پولیٹن ہوٹل زیادہ شہرت ركھتے ہیں۔ ان كے مقابلے پر ڈیرہ دوبئی میں فورٹ گرینڈ ہوٹل ، ائیر

پورٹ ہوٹل، دوبئی نیشنل ہوٹل، الخلیل پیلس ہوٹل، جے ڈبیلو میریاٹ ہوٹل، رائل الجبار ہوٹل،

دوبئی شیرٹ ، دوبئی انٹر كانٹی نینٹل، كارٹن ٹاور اور حیات ریجنسی ہوٹل جیسے عالی

شان ہوٹل موجود ہیں۔

ڈیرہ دوبئی میں ہی دوبئی كا ایوان صنعت و تجارت ہے اور اس كے قریب ہی اتصالات ﴿ٹیلی

مواصلات﴾ كی جدید اور خوب صورت عمارت ہے جو اس قدر نمایاں ہے كہ دور سے اپنی

موجودگی كا پتہ دیتی ہے ۔ اس كا توازن قائم ركھنے كے لیے پار دوبئی میں ریڈیو اور ٹی وی

اسٹیشن عجائب گھر اور چڑیا گھر موجود ہیں۔ طبی سہولیات فراہم كرنے كے لیے بھی

برابری كا اصول اپناتے ہوئے پار دوبئی میں الوسیع راشد اور العمل ہسپتال موجود ہیں۔ جبكہ

ڈیرا دوبئی میں المكتوم كویت اور نیو دوبئی اسپتال تعمیر كئے گئے ہیں۔ ان بڑے اسپتالوں كے

علاوہ متعدد چھوٹے چھوٹے شفا خانے پورے دوبئی میں پھیلے ہوئے ہیں۔

امارت دوبئی میں غیر ملكی خریداروں كا جم غفیر اور گاڑیوں اور انبوہ كثیر ہونے كے باوجود

ٹریفك كی آمد و رفت میں كوئی خلل نہیں پڑتا دن ہو یا رات ہر گاڑی وہاں كے مقامی

قوانین كے مطابق رواں دواں رہتی ہے۔ الگرہود اور المكتوم برج پر بھی صرف اس وقت ٹریفك

روكی جاتی ہے جب كسی بحری جہاز كے لیے پلوں كو كھولا جاتا ہے۔

آمد و رفت كے لیے ذاتی گاڑیوں كے علاوہ بسیں اور ٹیكسیاں بھی كثرت سے استعمال ہوتی

ہیں۔ ان كے مالكان میں حكومت اور نجی ادارے مساوی طور پر شریك ہیں۔ پرانی اور دھواں

دینے والی ٹیكسیاں یہاں پر جنس نایاب ہیں۔ دنیا كی بہترین كاروں كو ٹیكسی كے طور پر

استعمال كیا جاتا ہے۔ اور ان كا كرایہ بھی بہت مناسب ہوتا ہے۔ ٹیكسیوں كے لیے رنگت كی

بھی كوئی قید نہیں۔ صرف ان كی چھت پر پیلے رنگ كے چھوٹے سے شیشے پر سیاہ رنگ

سے لكھا ہوا لفظ ٫٫ٹیكسی٬٬ دیكھ كر ان كی شناخت ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں دوبئی

كی حكومت نے كچھ نئی ٹیكسیاں منگوائی ہیں جن كی رنگ بادامی ہے۔

خواہ كوئی بھی وقت ہو ٹیكسی كے لیے پریشان ہونے كی ضرورت نہیں۔ دوبئی میں جگہ

جگہ ٹیكسی اسٹینڈ موجود ہیں اور ان كے علاوہ فون كر كے ٹیكسی منگوانے كی سہولت

بھی چوبیس گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ ٹیكسی ڈرائیوروں كے پاس پیجر بھی موجود ہوتے

ہیں۔ یہاں كی بسیں بڑی اور كشادہ ہوتی ہیں۔ رنگت كے معاملے میں انہیں بھی چھوٹ

حاصل ہے البتہ حكومت كی بسیں زیادہ تر سبز اور سفید رنگ كی ہوتی ہیں۔

تھكے ہارے لوگوں كو تفریح مہیا كرنے كی غرض سے ڈیرا دوبئی میں شارع الوحیدہ پر

٫٫دوبئی فوك اور سوسائٹی تھیٹر٬٬ ہے جو خوب صورت ہال اور جدید صوتی نظام سے

آراستہ ہے ۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے كہ یہاں پر پیش ہونے والا پہلا ڈرامہ ٫٫امیدوار٬٬ اردو میں

تھا۔ اب تك یہاں پر ٠٣ كے قریب اردو ڈرامے، لاتعداد عربی ڈرامے اور ایك پنجابی ڈراما ٫٫پپو

پتر تے پیچا٬٬ اسٹیج ہو چكے ہیں۔ ڈیرا دوبئی میں حیات ایجنسی ہوٹل كے قریب ایك میدان

میں ہر جمعے كو پاكستان كی ٫٫دیہی كشتیوں٬٬ كے مقابلے ہوتے ہیں جنہیں وہاں آباد

سینكڑوں پاكستانی بڑے ذوق و شوق سے دیكھتے ہیں اور پہلوان ، شائقین سے اپنے فن

كی داد وصول كرتے ہیں۔ یہ مقابلے دیكھنے كے لیے دوبئی كے علاوہ عجمان، راس الخیمہ ، ام

القوین اور فجیرہ تك سے پاكستانی باشندے یہاں آتے ہیں۔ پاكستانیوں كے علاوہ دوبئی میں

بسنے والے بھارتی لوگ بھی ان مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بر دوبئی ﴿پار دوبئی﴾ میں بھی سیر و تفریح كے لیے بہت سے مقامات ہیں۔ الگرہود برج عبور

كرتے ہی بائیں ہاتھ پر پولیس كلب آتا ہے جہاں ہر سال ٫٫اسنوكر٬٬ كے علاوہ بین الاقوامی

مقابلے ہوتے ہیں۔ پار دوبئی كا عجائب گھر اور چڑیاگھر بھی دیكھنے سے تعلق ركھتے ہیں۔ ان

میں مسلسل توسیع كی جا رہی ہے۔ لیكن عوامی تفریح گاہوں میں سب سے زیادہ

شہرت النصر لیژر لینڈ كو حاصل ہے۔ اس كے خوب صورت آئس رنك كے اطراف چار ہزار افراد

كے بیٹھنے كی گنجائش ہے۔ دوبئی میں منعقد ہونے والی بڑی بڑی تقریبات یہیں منعقد ہوتی

ہیں۔

 النصر لیژر لینڈ كا تین سو نشستوں والا ٫٫لیلیٰ ہال٬٬ اسٹیج ڈراموں كے لیے مخصوص ہے۔

ڈزنی لینڈ كی طرز یہاں بھی ایك ونڈر لینڈ تعمیر كیا گیا ہے ۔ پہیوں والی ایك كشتی

كسی ٹرین كی طرح مسافروں كو ایك غار میں لے جاتی ہے جہاں حیرت انگیز مناظر ان كے

منتظر ہوتے ہیں۔

گولف كے شائقین كے لیے جبل علی فری زون كے راستے میں ٫٫ایمریٹس گولف٬٬ موجود ہے۔

اس كا طویل سبزہ زار ٠٠١٧ گز كے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں چھ خوب صورت جھیلیں

اور ٨١ ہول كورس بھی بنائے گئے ہیں۔ گولف كورس سے متصل كلب كی عالی شان عمارت

بدووٕں كے خیموں كی طرز پر تعمیر كی گئی ہے۔ ٠٠٥٥ مربع میٹر كا احاطہ كرنے والی اس

عمارت كا تمام فرش سنگ اسود سے بنا ہوا ہے۔ جس میں اعلی معیار كا ریستوران بار وی

آئی پی لاوٕنج اور كافی شاپ موجود ہیں اس كا نقشہ گولف كلب كے مشہور ڈیزائنر كارل

لٹن نے تیار كیا تھا۔

جزیرہ نمائے عرب كا مخصوص گرم اور خشك ماحول دوبئی میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا

ہے ۔ سال میں اوسط صرف ٣١ سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ ﴿اگر ہو تو   ﴾ كم سے كم درجہ

حرارت ٠١ ڈگری سینٹی گریڈ ﴿١٥ ڈگری فارن ہائیٹ﴾ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ٨٤ ڈگری

سینٹی گریڈ ﴿٨١١ ڈگری فارن ہائیٹ﴾ ہوتا ہے۔ لہذاسارا سال گرمیوں كے لیے موزوں ہلكا

پھلكا لباس پہنا جاتا ہے۔

 امارات كی سركاری زبان عربی ہے۔ لیكن اردو اور انگریزی بخوبی سمجھی اور بولی جاتی

ہے۔ پار دوبئی سے انگریزی كے دو كثیر الاشاعت روزانے ٫٫خلیج ٹائمز٬٬ اور گلف نیوز شائع

ہوتے ہیں۔ ریڈیو متحدہ عرب امرات اور دوبئی ٹی وی سے عربی اور انگریزی میں دلچسپ

پروگرام نشر كئے جاتے ہیں۔ ہفتے میں ایك اردو فلم بھی دوبئی ٹی وی سے پیش كی جاتی

ہے۔ اس كے علاوہ امارات كے دیگر ٹی و ی چینلز سے ہفتے ۔ ۔چار عدد اردو فلمیں نشر ہوتی

ہیں ۔ شارجہ ٹیلی ویژن روزانہ دو گھنٹے كی اردو نشریات پیش كرتا ہے جو دوبئی میں بھی

دیكھی جا سكتی ہیں۔ ان نشریات كی خاص بات یہ ہے كہ ان میں پیش ہونے والے ڈرامے

زیادہ تر پاكستانی ہوتے ہیں۔

دوبئی كا سكہ درہم ہے اور ایك درہم میں سو ٫٫فلس٬٬ ہوتے ہیں۔ معاشی استحكام كا

اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سكتا ہے كہ گزشتہ كئی برسوں كے دوران ڈالر كے مقابلے

میں درہم كی شرح مبادلہ میں كوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

دوبئی بنیادی طور پر ایك تجارتی ریاست ہے۔ جہاں سے مختلف اشیائ كی ایكسپورٹ اور

ری ایكسپورٹ ہوتی ہے۔ یعنی دیگر ممالك سے تیار شدہ اشیا یہاں لا كر دوسرے ممالك كو

برآمد كر دی جاتی ہیں ۔ لیكن اب كاروباری سرگرمیوں كے ساتھ زرعی كاموں پر بھی توجہ

دی جانے لگی ہے۔ دوبئی كے قریبی علاقے فجیرہ میں زراعت خصوصی ترقی كر رہی ہے اور

مقامی غذائی ضروریات پوری كرنے كے لیے تازہ بہ تازہ سبزیاں اگا كر قریبی منڈیوں میں

فروخت كی جا رہی ہے۔ كھجور ، ریگزار عرب كی شناخت اور صحرا میں بھٹكتے ہوئے

مسافروں كے لیے اس كا درخت نخلستان كی علامت ہے۔ اس كے علاوہ آسٹریلیا كا ایك پھل

كیوی بھی دوبئی میں بڑے شوق سے كھایا جاتا ہے۔ اس كا رنگ بھورا ہوتا ہے اوریہ چیكو كی

طرح نظر آتا ہے۔ اس كا چھلكا نرم اور مخملیں ہوتا ہے۔ ذائقہ ہلكا سا ترش گودا نرم اور

مخملیں ہوتا ہے۔ بیج سیاہ رنگ كے ہوتے ہیں۔

عرب پكوانوں كے حوالے سے ایك كہاوت ہے كہ ٫٫٬عرب ہی وہ قوم ہیں جنہیں كھانا آتا ہے٬

یعنی كھانے كے ذائقے سے لے كر كھانا كھانے كے انداز تك میں عرب بے مثال ہیں۔ عربوں كے

اس ٫٫ذوق خوردنی٬٬ كا اظہار مخملیں ہوتا ہے كے كھانوں میں بھی نظر آتا ہے۔ یہاں كے

بیشتر پكوانوں میں زیتون كا تیل اور پنیر بڑی كثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ دوبئی كی

خاص الخاص ڈش ٫٫ہریس٬٬ كہلاتی ہے جسے پاكستانی لوگ ٫٫بغیر گوشت كی حلیم٬٬

بھی كہتے ہیں كیونكہ اس كی رنگت اور ذائقہ بالكل حلیم جیسا ہوتا ہے۔ میٹھے میں كھجور

كا حلوہ سب سے قدیم اور مشہور سوغات ہے۔ پاكستان كے شمالی علاقہ جات كی بغیر

دودھ والی سبز چائے یا قہوہ كی طرز پر دوبئی میں بھی قہوہ بنتا ہے البتہ مقامی لوگ

اسے گہوہ كہتے ہیں۔

باشندگان دوبئی كھیلوں كے بہت دل دادہ ہیں اس لیے امارات میں ہر سال كركٹ، فٹ بال

اور گولف جیسے كھیلوں كے عالمی مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ پالتو جانور ركھنا بھی عربوں كے

رسم و رواج كا حصہ ہے۔ دوبئی میں گھڑ دوڑ كے لیے ریس كورس گراوٕنڈ اور اونٹوں كی دوڑ

كے لیے علیحدہ وسیع میدان ہے۔ گھوڑوں اور اونٹوں كی سالانہ دوڑیں انہی میدانوں میں

ہوتی ہیں۔ پالتو جانوروں كی تربیت اور نشوونما پر اتنی توجہ دی جاتی ہے كہ ایك اونٹ یا

گھوڑے كی قیمت بسا اوقات دس لالكھ درہم سے زیادہ تك جا پہنچتی ہے۔

دوبئی میں مقیم زیادہ تر پاكستانی، مزدور اور ملازمت پیشہ ہیں۔ ذاتی كاروبار یا سركاری

ملازمتوں پر فائز پاكستانیوں كی تعداد مقابلتاً بہت كم ہے۔ البتہ جبل علی فری زون بننے كے

بعد پاكستان كے بڑے سرمایہ كاروں نے بھی یہاں دلچسپی لینا شروع كر دی ہے۔ دوبئی

میں ایسے پاكستانیوں كا تناسب كم ہے جو اپنے بیوی بچوں كے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔ عرب

امارات كی جاری كردہ حالیہ ویزہ پالیسی كے مطابق دوبئی ویزا كی فیس میں اضافہ كر

دیا گیا ہے ۔ فیملی ویزا بھی صرف ان لوگوں كو دیا جاتا ہے جو یا تو بڑا كاروبار ركھت ہیں ۔

پانچ ہزار درہم یا اس سے زیادہ ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہوں یا پھر چار ہزار درہم تنخواہ كے

ساتھ انہیں رہائشی سہولت اپنے ادارے كی جانب سے زیادہ فراہم كی گئی ہو۔

ڈیرا دوبئی میں سب سے زیادہ پاكستانی نظر آتے ہیں۔ رہائش كے اعتبار سے پاكستانیوں كا

كوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے۔ عموماً ایك فلیٹ میں پانچ چھ پاكستانی كرائے پر رہتے ہیں

اور مل بانٹ كر كرایہ اور كھانے پینے كا خرچ اٹھاتے ہیں۔ پاكستانیوں كی بڑی تعداد كپڑے اور

روزمرہ اشیائ كی دكانوں پر كام كرتی ہے۔ ان میں دكان دار ملازم اور مزدور سب طرح كے

افراد شامل ہیں۔

پاكستانی كھانوں كی سہولت دوبئی كے كم و بیش تمام بڑے اور چھوٹے ہوٹلوں میں موجود

ہے۔ البتہ كراچی ہوٹل ، پاكبان ہوٹل، پاكستان ہوٹل اور لیاری ہوٹل پاكستانیوں كے چند بڑے

ہوٹل ہیں جہاں حلیم، چكن تكہ، نہاری پائے، بریانی غرض یہ كہ تقریباً ہر پاكستانی چكن

ڈش مل جاتی ہے۔ ان ہوٹلوں كا پاكستانی عملہ اور مخصوص پاكستانی ماحول ، وطن سے

دور روزگار كی تلاش میں آنے والوں كے احساس اجنبیت كو تھوڑی دیر كے لیے ختم كر دیتا

ہے۔

پار دوبئی میں پاكستانی بچوں كی تعلیم كے لیے ٫٫پاكستانی ایجوكیشن اكیڈمی ٬٬ ہے

جسے پہلے پاكستان اسلامیہ سكینڈی سكول كہا جاتا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں طالب

علموں كی تعداد كے اعتبار سے یہ سب سے بڑا تعلیمی ادار ہے جہاں دو شفٹوں میں

انٹرمیڈیٹ تك درسی تعلیم اور مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس كا الحاق اسلام آباد

﴿فیڈرل﴾ بورڈ سے ہے۔

پار دوبئی میں ہی پاكستانیوں كا ایك بڑا مركز ہے۔ جسے ٫٫پاكستانی ایسوسی ایشن٬٬

﴿دوبئی﴾ كہا جاتاہے ایسوسی ایشن كے عہدیداران ہر سال انتخابات كے ذریعے منتخب ہوتے

ہیں جن میں صرف وہی پاكستانی ووٹ دے سكتے ہیں جو ایسوسی ایشین كے مستقل

ممبر ہوں۔ اس مركز كو چلانے كے ذمہ داری بھی انہی منتخب عہدیدارو ں پر ہوتی ہے۔

اس مركز میں ایك ہال ہے جہاں سو سے ڈیڑھ سو افراد تك كے بیٹھنے كی گنجائش موجود

ہے۔اس كے علاوہ خوب صورت مسجد اور كینٹین بھی اسی مركز كا حصہ ہیں۔ یہاں ہر سال

٤١ اگست، ٣٢ مارچ، ٦ ستمبر اور ٥٢ دسمبر كو رنگارنگ پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ ٤١

اگست والے دن پاكستانیوں كو یوم پاكستان كی تقریبات كے لیے جلدی چھٹی دے دی جاتی

ہے۔ دوبئی میں پاكستانی قونصل خانہ بھی اس سلسلے میں خصوصی پروگراموں كا اہتمام

كرتا ہے اور پاكستانیوں كے علاوہ دوبئی كے بڑے عہدیداروں كو بھی ان میں مدعو كیا جاتا ہے۔

مذہبی تہواروں میں صرف عید الفطر، عیدالضحیٰ اور ٢١ ربیع الاول كے مواقع پر سركاری

چھٹی ہوتی ہے۔ بیشتر اسلامی ممالك كی طرح یہاں بھی جمعے كے دن ہفتہ وار تعطیل

ہوتی ہے۔ دوبئی كی زندگی بہت مصروف ہے ۔ اس لیے عموماً برصغیر پاك و ہند كے لوگ ایك

دوسرے كو شام كے كھانے پر مدعو كر لیتے ہیں یا دوسروں كے گھر جا كر مل لیتے ہیں۔

جمعرات كو اكثر شعر نشستیں بھی ہوتی ہیں جن كی نوعیت زیادہ تر گھریلو اور نجی

ہوتی ہے۔

وہ لوگ جن كو ویزا كی ضرورت نہیں

١۔ متحدہ عرب امارات كے شہری

٢۔ اومان، قطر، سعودی عرب ، كویت كے شہری

٣۔ برطانیہ اور كالونیز كے شہری

٤۔ بحرین كے شہری

٥۔ بحری جہاز یا ہوائی جہاز كا عملہ

٦۔ ایسے مسافر جن كی منزل آگے ہے وہ ٨٤ گھنٹے كے اندر conecting  فلائٹ سے چلے

جائیں گے تاہم اپنا پاسپورٹ اور ٹكٹ ہوٹل میں جمع كروانی ہو گی۔