Author Topic: افریقی ملک روانڈا میں قتل عام میں مرنےوالوں کی یاد میں تعزیتی مارچ  (Read 1105 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
Rwandan Genocide Memorial March
افریقی ملک روانڈا میں قتل عام میں مرنےوالوں کی یاد میں تعزیتی مارچ
افسوس ناک  یاد:
بر اعظم افریقہ کے ملک روانڈا میں پچیس سال قبل ہونےوالے قتل عام میں مرنےوالوں کی یاد میں تعزیتی مارچ ہوا
یادرہے کہ افریقی ملک روانڈا میں دنیا کے بدترین فسادات ہوئے تھے ۔ جس میں تین ماہ کے اندر مقامی اقلیت Tutsi  کے  آٹھ لاکھ  افراد کو قتل  کردیا گیا تھا
 روانڈا میں ہونےوالےفسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب انیس سوچورانوے میں اس وقت کےصدر کے جہازکومارگرایا گیا تھا ۔
 1994 میں 100 دنوں میں آٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔

روانڈا میں نسل کشی کے پچیس برس پر سوگ اور دعائیہ تقریبات
روانڈا کی کل آبادی کے دسویں حصے کی موت کا باعث بننے والی نسل کشی کے 25 سال مکمل ہونے پر ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔
ملک میں 100 دنوں تک سوگ منانے کی وجہ یہ ہے کہ سنہ1994 میں 100 دنوں میں روانڈا میں آٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں کی اکثریت تتسی قبیلے کے لوگوں کی تھی جنھیں ہوتو قبیلے کے شدت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ روانڈا میں تتسی قبیلہ اقلیت میں ہے۔
روانڈا کے صدر پال کگامے نے دارالحکومت کیگالی میں ان واقعات کی یادگار پر شمع روشن کی۔ صدر پال کگامے نے اس باغی گروہ کی قیادت کی تھی جس نے نسل کشی کو ختم کرایا تھا۔
ایک ہفتے تک جاری رہنے والی تقریبات کے آغاز کے طور پر صدر کگامے اس یادگار پر شمع روشن کی جہاں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد دفن ہیں۔

روانڈا یاد کیسے منائے گا؟
ایک ہفتے تک جاری رہنے والی تقریبات کے آغاز کے طور پر صدر کگامے اس یادگار پر شمع روشن کی جہاں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد دفن ہیں۔
نسل کشی کے بعد سے اب تک روانڈا میں بر سرِاقتدار 61 سالہ صدر کگامے دارالحکومت کیگالی میں کنونشن سینٹر میں خطاب کریں گے۔
روانڈا نسل کشی، مشتبہ شخص کانگو سے گرفتار
صدر کگامے اماہارو نیشنل سٹیڈیم میں دعائیہ تقریب کی سربراہی کریں گے۔ قتل عام کے دوران اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے تتسی اقلیت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سٹیڈیم کا استعمال کیا تھا۔
فرانس قتل عام سے پہلے موجود ہوتو حکومت کا قریبی اتحادی تھا۔ فرانس پر الزام ہے کہ اس نے حالات کو نظرانداز کیا اور حملے کرنے والی ہوتو ملیشیا کو تربیت دی۔

نسل کشی کیسے شروع ہوئی؟
6اپریل 1994 کو روانڈا کے اس وقت کے صدر جوینل ہابیاریمانا کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا۔ اِس حملے میں صدر سمیت طیارے میں سوار تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ صدر جوینل ہابیاریمانا کا تعلق ہوتو قبیلے سے تھا۔
ہوتو شدت پسندوں نے تتسی باغیوں کے گروپ ’روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ‘ (آر پی ایف) پر اس حملے کا الزام لگایا۔ تاہم آر پی ایف نے اس الزام سے انکار کیا.
قتل و غارت کی اس منظم مہم میں ہوتو ملیشیاؤں کو تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرستیں دی گئیں۔ بہت سے افراد کو انتہائی بیہمانہ طریقے سے بڑے چھروں سے قتل کیا گیا۔
نوجوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا کا تعلق حکمران پارٹی کے یوتھ ونگ سے تھا۔ اس ملیشیا نے تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو تلاش کرنے کے لیے سڑکوں پر ناکے لگائے، ریڈیو نشریات کے ذریعے نفرت انگیز اعلانات کیے، جزبات بھڑکائے اور گھر گھر کی تلاشی لی۔

نسل کشی کیسے ختم ہوئی؟
قتل عام روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر زیادہ کوششیں نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ اور بیلجیئم کی افواج روانڈا میں موجود تھیں لیکن اقوام متحدہ کے مشن کو کارروائی کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔
یوگینڈا کی حمایت یافتہ تتسی باغیوں کی ملیشیا آر پی ایف نے کیگالی کی طرف پیش قدمی کی جس کے بعد ہوتو قبیلے کے تقریباً 20 لاکھ افراد وہاں سے بھاگ گئے، زیادہ تر نے جمہوریہ کانگو میں پناہ لی۔
آر پی ایف پر بھی ہزاروں ہوتو افراد کے قتل کا الزام ہے جس سے وہ انکار کرتی ہے۔
تنزانیہ میں قائم انٹرنیشنل کریمینل ٹریبیونل فار روانڈا نے ہوتو نسل سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو نسل کشی میں ان کے کردار پر سزائیں سنائیں اور روانڈا کی کمیونٹی عدالتوں میں ہزاروں ہوتو افراد پر مقدمے چلائے گئے۔

روانڈا کے موجودہ حالات
نسل کشی نے ملک کی مجموعی سوچ اور تعمیر نو پر گہرا اثر ڈالا اور نسل کے موضوع پر بات کرنا اب بھی غیر قانونی ہے۔ لیکن ملک اقتصادی طور پر بحال ہوا ہے اور صدر کگامے کی پالیسیوں نے تیز رفتار معاشی نمو اور ٹیکنالوجی میں جدت کو فروغ دیا ہے۔
2017 کے انتخابات میں 98 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کگامے تیسری مرتبہ صدر بننے میں کامیاب رہے۔ معاشی ترقی کی رفتار حوصلہ افزا ہے اور افریقی ترقیاتی بینک کے مطابق سنہ 2018 میں ترقی کی شرح 7.2 فیصد رہی۔
تاہم صدر کگامے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ آمرانہ خیالات کے مالک ہیں اور اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے۔