Author Topic: علامہ راشد الخیری  (Read 3830 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
علامہ راشد الخیری
« on: February 24, 2009, 09:12:35 AM »

علامہ راشد الخیری

علامہ راشد الخیری کی پیدائش دہلی میں 1868ء میں ہوئی۔ والد کا نام عبدالواجد تھا ان کے مورث اعلیٰ کا نام مولانا ابولخیر اللہ تھا جو شاہجہان کے عہد میں عرب سے یہاں آخر آباد ہوئے۔ اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ خیری کا لفظ لگاتے ہیں شروع میں اپنے گھر پر ہی اردو، فارسی پڑھی پھر عربی سکول میں داخل ہوئے کچھ زمانے تک الطاف حسین حالی سے بھی پڑھتے رہے۔ یہ زمانہ ملک میں جہالت کا زمانہ تھا اور طبقہ نسواں کی حالت تو بہت ہی ابتر تھی اس حالت نے مولانا کے دل کو تڑپا دیا اور دل میں ٹھان لی کہ اپنی تحریروں سے اس کی اصلاح کی کوشش کریں گے چنانچہ انہوں نے طبقہ نسواں کی اصلاح اور بہبود کے لیے دو رسالے (بنات) اور (عصمت) جاری کیے ان میں سے (عصمت) ان کی وفات کے بعد بھی چلتا رہا۔وہ اردو کے چند خوش قسمت مصنفوں میں تھے جن کی کتابیں کثیر التعداد ہونے کے ساتھ ہی قبول عام کی سند حاصل کر چکی تھیں۔ راشد الخیری کا انتقال 1936ء میں ہوا

تصانیف

    * سمرنا کا چاند
    * صبح زندگی
    * شام زندگی
    * شب زندگی
    * ماہ عجم


Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study

مصور غم علامہ راشد الخیری
تحریر::  پروفیسر عائشہ کفیل برنی

   
علامہ راشد الخیری دہلی میں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان جید علما کا تھا ان کے جد امجد مولوی خیر اللہ شاہ جہاں کے دور میں عرب سے ہندوستان آگئے تھے۔ علامہ کے والد کا نام حافظ عبدالواجد، دادا مولوی عبدالقادر اور ان کے بزرگ مولوی عبدالرب اور مولوی ننھے تھے، شمس العلماء ڈپٹی نظیر احمد ان کے حقیقی پھوپھا تھے۔ علامہ نے انگریزی زبان کا گہرا مطالعہ کیا، فارسی مولانا الطاف حسین حالی سے پڑھی یہ وہ دور تھاجب مسلمان عورت تعلیم اور بعض بنیادی حقوق سے محروم چاردیواری میں مقید تھی۔ خواتین کی زبوں حالی علامہ سے نہ دیکھی گئی ان کا قلم عورت کی مظلومیت پر اٹھا اور اٹھتا ہی چلا گیا اور جادو دکھاگیا۔ علامہ اقبال انہیں جادوگر ادیب کہتے تھے۔حالی، ڈپٹی نظیر احمد، راشد الخیری اور خواجہ حسن نظامی وغیرہ جیسے اکابرین نے اردو زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ہی تعلیم نسواں کی مد میں بھی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس ضمن میں ان ادیبوں کی بے شمار تصانیف منظر عام پر آئیں اور یہ حضرات طبقہ نسواں کے محسن و معلم کہلائے۔ اس عہد میں مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں تھا اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت تھی۔ ایسے وقت میں دیگر ادباء کے ساتھ ساتھ راشد الخیری کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی محققانہ تالیف ”اردو کا پہلا افسانہ نگار راشدالخیری“ کے مطابق ”نصیروخدیجہ“ جو 1903ء میں ”محزن“ میں شائع ہوا اردو کا پہلا افسانہ ہے۔ مصور غم کا خطاب انہیں معروف صحافی احسان الحق نے دیا تھا۔ علامہ نے درجنوں کتابیں لکھیں ”حیات صالحہ“ اور جوہر قدامت ان کی ابتدائی تصانیف ہیں لیکن ”صبح زندگی“ ”شام زندگی“ شبِ زندگی“ کو شاہکار کہا جاتا ہے۔ علامہ کی ایک تصنیف ”ماہِ عجم“ ایک تاریخی ناول ہے جس کے بارے میں بہادر یار جنگ نے کہا تھا کہ یہ کتاب میں نے بار بار پڑھی ہے اور بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔برِصغیر کے جید عالم و مفسرین قرآن مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا کہ ”میں نے اردو
زبان علامہ راشدالخیری کی تصانیف سے سیکھی ہے علامہ ٹریجڈی کے بادشاہ تھے اس لیے انہیں اردو کا ”چارلس وکٹر“ بھی کہا جاتا ہے۔علامہ نے تاریخی و مذہبی کتب بھی تصنیف کیں، آمنہ کا لال اور سیدہ کا لال اہم کتابیں ہیں۔ 1908ء میں علامہ نے مولانا محمد علی جوہر کے مشورے سے رسالہ ”عصمت“ تعلیم نسواں تربیت نسواں اور اصلاح نسواں کی غرض سے جاری کیا۔ علامہ نے اس جریدے میں خواتین کے نام سے مضامین لکھے تاکہ عورتوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔ خواتین کا شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اردو کی بڑی شاعرہ زاہدہ خاتون شیروانیہ ز۔ خ۔ ش کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ ان کا کلام عصمت کے علاوہ سرعبدالقادر کے جریدے ”تمدن“ اور شمس العلماء مولوی ممتاز علی کے رسالے ”تہذیب نسواں“ میں بھی شائع ہوا۔ ز۔ خ۔ ش پر ڈاکٹر شان الحق حقی اور محترمہ فاطمہ حسن کی تحقیق اہم ہے۔1924ء میں علامہ نے ”عصمت“ کی ادارت اپنے لائق فرزند مولانا رزاق الخیری کے سپرد کردی جنہوں نے اس رسالے کو چار چاند لگادیئے۔ مسلم گھرانوں میں ”عصمت“ کی توقیر کا یہ عالم تھا کہ لڑکیوں کو جہیز میں عصمت کی خریداری دی جانے لگی۔جنوری 1936ء میں علامہ شدید علیل تھے، بیگم عائشہ اکرام اللہ انہیں دیکھنے گئیں کمرے سے واپس آئیں تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کچھ دیر بعد علامہ نے رزاق صاحب کو بلایا اور کہا ”اس لڑکی کے خیالات اچھے ہیں اس سے مضمون لکھواتے رہنا، اس کے بعد بیگم اکرام اللہ بس عصمت کی ہوکر رہ گئیں۔ پچاس سال تک ان کی قابلِ قدر تحریریں عصمت کی زینت بنتی رہیں۔1947ء کی ہجرت کے بعد جریدہ کراچی سے نہایت باقاعدگی سے نکلنا شروع ہوا پھر اس کی گولڈن جوبلی اور الماسی جوبلی منائی گئی۔ 1979ء میں مولانا رزاق الخیری رحلت فرماگئے، 56 سال تک انہوں نے ادارت کی۔ مولانا کے بعد عصمت کی پاسبانی ان کی اہلیہ معروف ادیبہ آمنہ نازلی اور فرزند طارق الخیری نے کی اور اب عصمت نے اشاعت کے سو برس بھی مکمل کرلیے جو ایک تاریخ ہے۔
شکریہ جنگ