Author Topic: پاکستان کے اصل موبائل صارفین  (Read 2050 times)

Offline علم دوست

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 1288
  • My Points +2/-1
پاکستان کے اصل موبائل صارفین
« on: January 09, 2009, 05:56:02 PM »


پاکستان کے اصل موبائل صارفین

مختار آزاد کراچی


پاکستان میں ہر ماہ تئیس لاکھ سے زائد موبائل فون صارفین کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت پندرہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں چار کروڑ سے زائد افراد موبائل فون رکھتے ہیں جو مجموعی طور پر ماہانہ دس کروڑ روپے سے زائد رقم موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے پیغامات پر خرچ کرڈالتے ہیں۔

ماہرین تعلیم کا اندازہ ہے کہ موبائل فون صارفین کی ایک بڑی تعداد کمسن طالب علموں کی ہے اور ایس ایم ایس استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی انہی کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون کے ذریعے پیغام رسانی میں سال دو ہزارپانچ چھ کے دوران ایس ایم ایس بھیجنے کی شرح میں ایک سو سولہ فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر موبائل فون صارفین نے ایک سال میں ایک ارب بیس کروڑ روپے تار سے آزاد برقی پیغام رسانی پر خرچ کیے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایس ایم ایس بھیجنے پر خرچ ہونے والی اس رقم کی شرح گزشتہ مالی سال کے دوران انسٹھ کروڑ نوے لاکھ روپے تھی۔

مقامی نجی اسکول میں چھٹی جماعت کی بارہ سالہ طالبہ دریشم کو چار ماہ قبل ان کے چچا نے تحفے میں موبائل فون دیا تھا جس کے بعد سے اب تک وہ تین مختلف کمپنیوں کی کنکشن لائن استعمال کرچکی ہیں اورپندرہ سو روپے سے زائد مالیت کے فون کارڈ خرید کر استعمال کرچکی ہیں۔ دریشم کا کہنا ہے ’مجھے موبائل فون استعمال کرنے کا شوق اپنے ان چار ساتھوں کو دیکھ کر ہوا تھا جو کلاس میں اپنے ساتھ موبائل فون لے کر آتے تھے اور وقفے کے دوران ایس ایم ایس کرتے تھے۔ اب میرے پاس بھی موبائل ہے اور میں بھی دوستوں کو ایس ایم ایس کرتی رہتی ہوں۔ دن میں کم از کم دس بارہ ایس ایم بھیجتی ہوں۔‘

دریشم کے والد محمد یونس ملازمت کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’ میں بچی کے پاس موبائل فون کو اس لیے کارآمد سمجھتا ہوں کہ اسکول کے دوران خدانخواستہ اگر کوئی فوری رابطے کی ضرورت پڑے تو وہ ہم سے آسانی سے رابطہ کرسکتی ہے۔‘

فوری رابطے اور پیغام رسانی کی اس جدید سہولت نے ضرورت کے ساتھ ساتھ جہاں فیش اور قومی فضول خرچی کا رخ اختیار کیا ہے، وہیں متوسط طبقے میں بھی ایسے موبائل فون صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان ہیں۔

سکول جانے والے بچوں کے پاس موبائل فون کی موجودگی کے سبب جہاں یہ ایک طرف اسے شوقیہ طور پر پیغام رسانی (ایس ایم ایس) کے لیے استعمال کرتے ہیں وہیں یہ سہولت اپنے والدین سے استاد کی فوری شکایت کا کام بھی سرانجام دے رہی ہے۔
   
بڑے شہروں میں ایسے کتابچے فروخت ہورہے ہیں جن میں محبت ناموں اور لطائف سمیت مختلف موضوعات پر پیغامات درج ہوتے ہیں

ناظم آباد کے نجی سکول کی معلمہ انیقہ نسرین کا کہنا ہے کہ ’اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر استاد بچے کو کسی بات پر سرزنش کرے تو وہ ایس ایم ایس کرکے فوری طور اپنے والدین کو اطلاع دے دیتے ہیں اور وہ اسکول آ کر استاد کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ خود میں ایک اسکول کی ملازمت اس لیے چھوڑ چکی ہوں کہ ایک بچی نے میری سرزنش پر والدین کو ایس ایم ایس کرکے بلوالیا تھا اور ان کی شکایت پر اسکول کے منتظم نے مجھے ان سب کے سامنے ڈانٹا۔ میرے خیال میں کم عمر بچوں بالخصوص اسکول میں بچوں کے پاس موبائل کا ہونا ان کی تعلیم اور ذہنی یکسوئی کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے ان کے پاس موبائل فون کی موجودگی نہ صرف ان کی تعلیم بلکہ اخلاق پر بھی مضر اثرات ٹال رہا ہے، جس کے ذمے دار خود والدین ہی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ کم عمر بچوں کے اپنے مفاد میں یہ بات ہوگی کہ انہیں موبائل فون نہ لے کر دیا جائے۔‘

کم عمر موبائل صارفین میں شوقیہ طور پر ایک دوسرے کو لطیفوں اور افسانچے بھیجنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب کراچی سمیت ملک کے اکثر بڑے شہروں میں بے نام ناشروں کے طباعت کردہ ایسے کتابچے بھی فروخت ہورہے ہیں جن میں محبت ناموں اور لطائف سمیت مختلف موضوعات پر انگریزی اور رومن اردو میں مختلف نوعیت کے پیغامات کا متن تحریر ہوتا ہے۔

گلشنِ اقبال کے مصروف ترین علاقے حسن ا سکوائر پر پرانی کتابیں فروخت کرنے والے نعمان علی سے جب سوال کیا گیا کہ وہ یہ کتابچے کہاں سے خریدتے ہیں اور ان کے خریدار کس عممر کے افراد ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’ہم اردو بازار سے پیغامات پر مشتمل یہ کتابیں خرید کر لاتے ہیں اور ان کے خریداروں کی اکثریت کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ یہ کتابچے فروخت بھی زیادہ ہوتے ہیں اور چھوٹے ناشرین ان پر منافع بھی زیادہ رکھتے ہیں اس لیے ہم انہیں اپنے سٹالوں اور ٹھیلوں پر رکھتے ہیں۔‘

کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے والے ماہر نفسیات راشد حنیف کا کہنا ہے کہ ’کم عمر بچوں کے پاس موبائل فون کی موجودگی اور اس کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب پیدا ہونے والے مضر سماجی اثرات کو یکسر نظر انداز کرنا ممکن نہیں، تاہم ضرورت اس چیز کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو جب یہ سہولت فراہم کریں تو اس کے درست استعمال کے بارے میں ان کی ذہنی تربیت بھی کریں اور اس بات کا جواز طلب کریں کہ انہوں نے موبائل فون کا کریڈٹ کس طرح صرف کیا ہے۔‘
   
کم عمر بچوں کے زیرِ استعمال موبائل فون کی درست تعداد بتانا ممکن نہیں

کراچی میں آغا خان فاؤنڈیشن کے ہائی سکول کے سابق استاد اور محقق رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’اکثر ایسا ہوتا کہ پڑھانے کے دوران کسی طالب علم کے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس سے نہ صرف استاد بلکہ بچے کی ذہنی یکسوئی بھی ٹوٹتی ہے اور لا محالہ اس کا اثر تعلیم پر پڑتا ہے۔ اسی لیے ہمارے اسکول نے دورانِ تعلیم طالب علموں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی لگادی تھی۔‘

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’ کم عمر بچوں کے زیرِ استعمال موبائل فون کی درست تعداد بتانا ممکن نہیں البتہ اس بات کو بھی یکسر رد نہیں کیا جاسکتا کہ کم عمر بچوں کے خاصی تعداداس کی صارف ہے۔
ملک میں دو طرح کے کنکشن فراہم کیے جاتے ہیں۔ جن میں ایک کنکشن ’پوسٹ پیڈ‘ کہلاتا ہے جس پر ماہانہ بنیادوں پر بل ادا کیا جاتا ہے اور دوسرا ’پری پیڈ‘ ہے جس کے لیے ایک سو سے لے کر ایک ہزار روپے مالیت تک کے کارڈ کے ذریعے قبل از وقت ادائیگی نظام کے تحت فون اور ایس ایم ایس کرنے کی محدود سہولت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ان دونوں طریقوں کے تحت کنکشن کے حصول کے لیے قومی شناختی کارڈ کی نقل درکار ہوتی ہے۔ اس لیے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے زیرِ استعمال موبائل فون کنکشن ان کے والدین یا گھر کے کسی اور بالغ افراد کے نام پر حاصل کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث یہ بتانا نہایت دشوار ہے کہ اس وقت ملک میں اٹھارہ سال سے کم عمر موبائل صارفین کی تعداد کتنی ہے۔‘

اکتوبر 2006 کے آخری ہفتے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جاری کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر کے دوران پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ستر لاکھ صارفین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح اس وقت ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد چار کروڑ، پندرہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔



شکریہ
 http://www.bbc.com/urdu/

میں بہت عظیم ہوں جو کہ بہت ہی عظیم علمی کام کررہا ہوں